لوگوں کے عیب نہیں خوبیاں دیکھیں

26/08/2023

ہم میں سے کوئی معصوم نہیں ہے ، گناہ ہر ایک سے سرزد ہوتا ہے ، سارے لوگوں میں عیوب ونقائص ہیں ۔ ایک اللہ کی ذات ہے جو ہر قسم کے عیب سے پاک وصاف اور ہر قسم کی خوبی اس میں بدرجہ کمال ہے۔ جب کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں تو پھر کوئی دوسرے کے عیوب کو بیان کرکےانہیں لوگوں کے سامنے رسوا کرنے کی کیوں کوشش کرتا ہے؟ ایسے لوگوں کے لئے سخت قسم کی سزا ہے جو اپنےعیوب جانتے ہوئے دوسروں کے عیوب ظاہر کرتا ہے کبھی اپنی جھوٹی برتری دکھانے کے لئے تو کبھی دوسروں کو ذلیل کرنے کے لئے یا کبھی دنیاوی منعفت کے حصول کے لئے۔ یاد رکھئے، آج ہم کسی کو رسوا کرتے ہیں تو کل قیامت میں اللہ تعالی ہمیں بھی لوگوں کے سامنے ذلیل ورسوا کرے گا۔

ہمارے معاشرے میں دوسروں پر ہنسنا، ان کا مذاق اُڑانا اور ان کی دِل آزاری کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہےکہ لوگوں کی توجّہ کا مرکز ہمیشہ دوسروں کی ذات ہی کیوں ہوتی ہے۔ جیسے’’یہاں کیا ہو رہا ہے‘‘،’’ وہاں کیا سرگوشیاں چل رہی ہیں‘‘، ’’پڑوسی کیا کر رہے ہیں‘‘،’’ فلاں کی بیٹی کیوں گھر آکر بیٹھ گئی‘‘،’’ فلاں کی بہو میکے کیوں چلی گئی ‘‘،’’اِس کی شادی اب تک کیوں نہیں ہوئی‘‘ ،’’ اُس کی منگنی کیوں ٹوٹ گئی؟؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ لوگ اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے ۔
دوسروں کے معاملات کی ٹوہ لگانا ، ان کے عیوب کی کھوج میں رہنا کیا ضروری ہے؟ حالاں کہ دینِ اسلام تو ایسی باتوں اور حرکتوں سے روکتا ہے۔ دوسروں کے احساسات و جذبات کو ٹھیس پہنچانے، کسی کا دِل دُکھانے یا توڑنے کی بھی تو ہمارے دین میں قطعاً اجازت نہیں۔ جب معاشرے میں یہ رویّہ قابلِ تعریف نہیں، تو پھر یہ روش ترک کیوں نہیں کی جاتی۔ شیخ ابراہیم ذوق کے شعر کا ایک مصرع ہے؎ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو ‘‘،تو ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجّہ دینی چاہیے، نہ کہ دوسروں ہی کی جستجو میں لگے رہیں کہ ہمیں ہر ممکن حد تک خود کو اس گناہِ بے لذت سے بچانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو غرور و تکبر پسند کرتے نہیں، عِجز و انکساری پسند ہے ۔
عیب جوئی کا اتنا ہی شوق ہے، تو خود اپنے عیب تلاش کرکے اُن کی اصلاح پر مغز ماری کریں، جب کہ دوسروں کی صرف خُوبیوں پر نظر رکھیں، سیرتوں کو پرکھیں۔ کسی کی جسمانی کمی بیشی کو لے کر اُسے طنز کا نشانہ نہ بنائیں، نہ کسی کی معذوری کا مذاق اُڑائیں۔ اُس ربّ سے ڈریں، جس نے اُنہیں اس حالت میں پیدا کیا۔ وگر نہ خدانخواستہ یہ معاملہ خود آپ کے یا آپ کے کسی اپنے کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
اس لیے ہمیشہ دوسروں کی حوصلہ افزائی، دِل جوئی کریں اور معاشرے کا ایک کارآمد حصّہ بننے میں اُن کی ہر ممکن مدد کریں، ان کا ساتھ دیں۔’’جیو اور جینے دو‘‘ کے مصداق، خوش رہیں اور کوشش کریں کہ سب آپ سے بھی خوش رہیں۔