جرم

22/08/2023

جرم سے مراد ایسا غیر اخلاقی فعل ہے جو کوئی شخص دانستہ طور پر کرتا ہے۔ جرم کو ہر تہذیب یافتہ معاشرے میں نقصان دہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے مختلف سزائیں بھی دی جاتی ہیں لیکن آج موضوعِ گفتگو یہ ہے کہ لوگ آخر کسی بھی جرم کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں؟حالانکہ یہ بات تو ہر انسان کی گھٹی میں شامل کی جاتی ہے کہ کسی بھی انسان، جانور حتیٰ کہ شے کو بھی نقصان پہنچانا غلط ہے تو وہ انسان جس نے یہ سبق بچپن سے پڑھا ہوتا ہے آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کی دہلیز کو پار کر کے جانور سے بھی بدتر ہوجاتاہے؟ غصہ؛ انتقام میں کیسے تبدیل ہو جاتا ہے؟ روئیہ یکسر بہیمانہ تشدد بن جاتا ہے۔۔۔کہ انصاف کے علمبردار خود اس جرم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
یہاں میں کسی خاص فرد، گروہ یا طبقے کی بات نہیں کر رہی بلکہ اس پورے معاشرے میں پنپتے شرمناک اور انسانیت سوز مظالم پر اپنا اظہار خیال کر رہی ہوں جو معاشرے کو گھن کی طرح کھائے جا رہے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ اور جدید دور میں بھی جاہلیت کا فتنہ سر چڑھ کے بول رہا ہے۔۔۔ کیا تعلیم یافتہ/ باشعور یا ان پڑھ۔۔۔ سبھی ایک ہی کیٹیگری کے چٹے بٹے نظر آتے ہیں۔ جہاں دیکھیں نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر کوئی “پہلے میں”۔۔۔ اور اس “پہلے میں” نے سارا نظام تباہ کر رکھا ہے۔ آپ کوئی بھی ہوں، زندگی کے ہر شعبے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی واسطہ رہتا ہی ہے۔ آپ بھی بخوبی لوگوں کی بے حسی اور زبان بدتمیزی کا ادراک رکھتے ہوں گے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ساری تمیز و تہذیب کا لبادہ تار تار کیا جاتا ہے۔ یہ سب چھوڑ دیں، آپ صرف کسی کام سے کسی گلی سے گزرتے ہوئے راہ چلتے سے کوئی ایڈریس پوچھ لیں۔۔۔ توبہ توبہ پیچھے آنے والے ہارن بجا بجا کر آپ کی جان کو آ جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ ایسی نازیبا گفتگو کریں گے کہ آپ کے ہوش حواس میں بھی نہ ہو۔
آپ سوچیں گے کہ یار یہ تعلیم یافتہ ہیں۔۔۔ بظاہر کھاتے پیتے گھرانے کے سپوت نظر آتے ہیں، لیکن تمیز قریب سے نہیں پھٹکی۔ جی ہاں!! آپ کا ایسا سوچنا ٹھیک ہے۔ تعلیم کی ڈگریاں اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں۔۔۔ لیکن اب تربیت کہیں نظر نہیں آتی۔

جی تو واپس آتے ہیں اپنے ٹاپک کی طرف۔۔۔ جرائم کی کچھ پیچیدہ نفسیات بھی نوجوانوں میں جرائم بڑھنے کا سبب ہے۔ جس میں بچپن میں خواہشات کا پورا نہ ہونا، بچے کو جرم سے بھرا ماحول ملنا یا پر تشدد ماحول میں پرورش پانا، تعلیمی یا معاشی دباؤ وغیرہ شامل ہیں۔اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں ہمارا پڑھا لکھا طبقہ نوکری کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ ان حالات میں آج کا نوجوان معاشرتی طبقاتی فرق میں اس قدر الجھ کر رہ گیا ہے کہ صحیح غلط کی تمیز بھول بیٹھا ہے۔ غربت اور بے روزگاری سے دل برداشتہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد تیزی سے جرائم کی طرف راغب ہورہی ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ قلم کے بجائے اسلحہ کو اٹھا کر وہ جلد کامیابی پا لیں گے اور یقین مانیں ایسے حالات میں انھیں سمجھانے اور صراط مستقیم دکھانے والا کوئی نہیں ہے۔ بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک اور وجہ مادہ پرستی بھی ہے ہم آج پیسے کو ہی سب کچھ مان بیٹھے ہیں مجھ سمیت سب کو یہی لگتا ہے کہ پیسہ ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ یہ سوچ غلط ہے اس کو بدلنے کی ضرورت ہے لیکن سوال تو پھر وہی آجاتا ہے کہ یہ کام کرے گا کون؟ نوجوانوں کی محرومیاں ختم کرنے کے لیے سیمینار کیے جاتے ہیں، کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، انھیں نیک راہ پر چلنے کے درس دیے جاتے ہیں لیکن ان کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ ہم دراصل ان تمام تقریبات میں مسئلوں کی نشاندہی تو کر دیتے لیکن ان کو حل کرنے لیے اقدامات نہیں کرتے۔ ہم اس ساری کہانی میں میڈیا کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ ہمارے ہاں جو مواد ٹی وی اور سوشل میڈیا پر پیش کیا جا رہا وہ ہماری گرتی ہوئی اخلاقیات کا واضح ثبوت ہے۔ ہم جو کچھ پڑھتے، دیکھتے یا سنتے ہیں، ہمارے لا شعور میں وہ محفوظ ہو جاتا ہے۔ معاشرے کے کچے ذہن کے کم پڑھے لکھے نوجوان گلیمر اور چمکتی دنیا دیکھ کر فوراً اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے کسی بڑے جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ ایسے جرائم میں پکڑے جانے والے مجرم سے جب سوال کیا جاتا ہے کہ اس نے یہ جرم کیوں کیا تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم فلاں ڈرامے کے فلاں کردار سے متاثر تھے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ میڈیا بھی کسی حد تک جرائم کے بڑھنے میں مددگار ہے۔ دراصل ڈراموں میں نام نہاد ہیرو کے کردار کو جان بوجھ کر ظالم اور جرم کی راہ پر چلنے والا دکھایا جاتا ہے اور پھر بعد میں اس کردار کو اتنا دلکش بنا دیا جاتا ہے کہ لوگ خصوصاً نوجوان نسل اس کو دیکھ کر ان سے غلط سبق سیکھتی اور جرم کر بیٹھتی ہے۔ ایسے تمام مواد کو بند کرنا ہوگا جس سے لوگوں کے ذہن میں انتشار پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔ جرائم کا خاتمہ کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے لیکن ہماری حکومت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جرائم پیشہ گروہ اور مافیا کے خلاف آپریشن کریں اور اس سلسلے میں خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لا کر فوری انصاف فراہم کریں۔ لیکن افسوس ہمارے مقتدر حلقوں کو بھی تبھی ہوش آتا ہے جب کوئی سانحہ ہوجاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارا پاکستانی معاشرہ کسی لحاظ سے بھی انسانی معاشرہ کہلانے کے قابل نہیں رہا۔ ہم اس تلخ حقیقت کو نہ بھی مانیں لیکن وقت بہت ظالم ہے۔ آج بھی جب کسی دلخراش جرم کا ارتکاب ہوتا ہے تو وقت ہمارا ماضی ہمارے سامنے لاکھڑا کرتا ہے اور ہمیں آئینہ دکھاتا ہے کہ اب کیوں آنسو بہاتے ہو؟، چیختے چلاتے ہو؟ تاریخ گواہ ہے تم تو وہ قوم ہو جس نے آج تک کبھی اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ اگر ہم واقعی مستقبل میں اپنی نوجوان نسل کو جرائم کی لت سے بچانا چاہتے ہیں اور سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو جرائم پر قابو پانا ہوگا اور اس کے لیے ہمیں زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھانا ہونگے۔