یوم آزادی ۔۔۔۔"کیا ہم آزاد قوم ہیں؟

14/08/2023

اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی پاکستان میں بچے بڑے تمام شہری جشن آزادی کو پرجوش طریقے سے منانے کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ ہر طرف لہراتے سبز ہلالی پرچم گلی کوچوں کی رونقیں بڑھا دیتے ہیں۔ کہیں تحریک آزادی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے والےکارکنان کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور کہیں قومی ترانے اور نغموں سے خون گرمایا جاتا ہے۔

آزادی کیا ہے؟ یہ سمجھنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔ کیونکہ جب ہم نے اس ملک میں جسے آزاد مملکت پاکستان کہا جاتا ہے آنکھ کھولی تو اسے آزاد پایا ہے۔ ہم نے نہیں دیکھا اسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دیں ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے جن کا ہندوؤں نے نام ونشان مٹا دیا انہوں نے اپنی نسلیں قربان کر دی صرف اور صرف آزادی کے لئے اگر یہ جاننا ہے کہ آزادی کیا ہے تو کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہم اپنے بچپن سے ہی انہیں آزادی کی جدوجہد کرتے دیکھ رہے ہیں وہاں ہر ماں اپنے بچے کو جنم دیتے ہی بالکل یہ نہیں کہتی ہے کہ میں اپنے بچے کو ڈاکٹر یا انجینیئر بناوں گی بلکہ وہاں ہر ماں اپنے بیٹے کو کہتی ہے میرا بیٹا مجاہد بنے گا۔
اس کے ہوش سنبھالتے ہی اسے یہ بتاتی ہے آزادی کو پانے کے لیے تمھیں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا وہاں ہر ماں خطے کی آزادی کے لیے اپنی اولاد کو شہید کرنے کے لیے پیدا کرتی ہے حوصلہ اتنا ہے اس ماں کا جو یہ دیکھتی ہے میرا بیٹا کیسے شہید ہوا اس کے جنازے میں وہ ماں فخر سے یہ نعرہ بلند کرتی ہے۔ شہید تیرے لہو سے انقلاب آئے گا۔ وہاں نہ کوئی بیٹی محفوظ ہے نہ ان کی عزتیں۔ نہ جان ومال کی حفاظت کی جارہی ہے۔ ایک ہی گھر سے کئی جنازے اٹھتے ہیں۔

ان کو قتل کرنے کی بس ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ یہ مسلمان ہیں یہ کشمیر کی آزادی کے لئے آواز اٹھاتے ہیں ان کا بس اتنا قصور ہے۔ میرا یہ ایمان ہے اللہ کبھی بھی کسی قوم کی اتنی جدوجہد کو رائیگاں نہیں جانے دے گا جبکہ اس کے برعکس پاکستان جسے ہم آزاد کہتے ہیں جس میں ہم نعرہ لگاتے ییں پاکستان زندہ باد۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں اسے زندہ کیسے رکھنا ہے آج بھی ہمارے ہاں لاکھوں لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا آج بھی حوا کی بیٹی کو سرعام اپنی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

آج بھی ہمارے ہاں ایک غریب کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی دس سال کی بچی کی گمشدگی پر پولیس اہلکار اس معصوم بچی پر بھاگ جانے کا الزام لگاتے ہیں سر عام قتل کر دیا جاتا ہے۔ کیا یہ آزادی ہے۔ ؟ آزادی اسے کہتے ہیں؟ نہیں ہم غلام ہیں ہم اپنے ہی لوگوں کے غلام ہیں ہم نے باہر کی طاقتوں سے تو آزادی حاصل کر لی ہے پر اندر کی طاقتوں سے آج بھی ہم آزاد نہ ہوسکے۔ ہم غلام ہیں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں۔

ہم غلام ہیں غلط سوچوں کے ہم ایک آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی غلام ہیں یہاں ہر شخص کسی دوسرے شخص کے حقوق چھین رہا ہے توہم آزاد کیسے ہوئے؟ آزاد قوموں میں تو ہر شخص کو اس کی عزت و آبرو اس کے جان و مال کی حفاظت کا حق حاصل ہوتا ہے اس ملک نے ہمیں ایک شناخت دی لیکن افسوس ہم خود کے ہاتھوں ہی اپنی شناخت کھوتے جا رہے ہیں جو قومیں اپنی تہذیب وثقافت کو کھو دیتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی ہیں کیا ہم نے اس ملک کو بچا کے رکھا ہے۔
اپنے الفاظ کو سمیٹتے ہوئے، یہ ضرور کہوں گی۔۔۔ آزادی۔۔۔ آزادی فکر کا نام ہے۔ آزادی حیات کا نام ہے۔ آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کے حصول کے لئے بڑی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ بڑی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ لیکن جب مل جاتی ہے تو پھر اس کے لئے روز لڑنا پڑتا ہے۔ اپنے آپ سے، افکار اور حالات سے کہ پھر آزادی نہ کھو بیٹھیں۔ آزادی کی حفاظت کے لئے ہر طلوع ہونے والا سورج جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے، اور جو اس کی پاسداری نہیں کرسکتے وہ آزاد نہیں رہتے۔

ستم ظریفی تو دیکھئیے!! جس ملک کی بنیاد اسلام کے نام پہ رکھی گئی تھی؟ ہم دوبارہ اسی دور میں جارہے ہیں جو اسلام سے پہلے کا تھا۔ خدارا خود کی جنگوں سے باہر نکلیں ایک ہو کر اس ملک کو آگے بڑھائیں ملک کو ترقی کیطرف گامزن کرنے کے لیے خود کا حصہ ڈالیں۔ اور اپنی شناخت کھونے سے بچاہیں۔ یہی وقت ہے پھر سے یکجا ہونے کا تو آئیں ملکر کر عہد کرتے ہیں کہ اُسی پاکستان کی بنیاد کو قائم رکھنے میں اپنا حصہ ڈالیں جس مقصد کے تحت پاکستان حاصل کیا گیا۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم انفرادی یا شخصی آزادی کی بجائے ایک آزاد اور خودمختار ملت بن کر ابھریں اور اپنے ملکی وقار اور سالمیت کا لوہا ڈنکے کی چوٹ پر دنیا کے نقشے پر آویزاں کریں، آمین۔

پاکستان زندہ باد