جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
13/08/2023
یوں تو اس دنیا میں بسنے والوں کے کئی ذوق و شوق پائے جاتے ہیں، مگر یقین کے ذوق سے مالامال لوگ بیشک کم ہی نہیں بلکہ نایاب بھی ہیں۔ ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی ہمیں ترقی کے تین ہی نصب العین بتائے ہیں، ایمان، اتحاد اور تنظیم۔ ایمان کا دارومدار یقین پر ہے، یقین جس قدر کامل ہو اسی قدر ایمان پختہ ہوگا۔ کامل یقین زندگی کے سفر میں نہایت اہم اور بنیادی ہتھیار جس کے بل بوتے پر نہ صرف دنیائے عالم کو تسخیر کیا جا سکتا ہے، بلکہ خود اپنے نفس کو زیر کر کے اپنے آپ میں چھپے خزانہ کو بھی حاصل کیا جانا ممکن ہے۔ بلاشبہ یقین کا حاصل ہو جانا بھی کوئی کم اچیومینٹ یا انعام نہیں ہے۔ انسان اپنے نفس کی کشتی کا ناخدا ھے، چاہے تو وہ اسکو با خیریت کنارے پر لگا دے، چاہے تو بیچ دریا غرق کر دے۔ اس سفینہ کو منزلِ مقصود تک پہنچ جانے کی واحد ضمانت یقین ہے۔
بقول ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔
غلامی میں نا کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
غلامی آخر غلامی ہی ہوتی ہے ذہنی ہو یا بدن کی۔ کثرتِ خواہشات نفسانی انسان کو غلام بنا کر ہی چھوڑتی ہے۔ خود پر یقین یا خدا پر یقین ان تمام اسیروں سے آزادی دلاتا ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ؛
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں یہی ہیں مردوں کی شمشیریں
مگر اک سوال جو دماغ میں بازگشت کر رہا ہے، کہ اب یہ دولتِ یقیں نصیب کیسے ہو۔ کافی سوچ و بچار کے بعد جواب ملا کہ یقین ایک جوہر ہے اور کسی بھی چیز کا جوہر اتنی آسانی سے نہیں نکلتا اسکو کئی بار آتش کی نظر کیا جاتا ہے، تب جاکے کامیابی ملتی ہے۔ بالکل اسی طرح طلب کی آگ میں خود کو جلا کر راکھ ہو جانے کے بعد ہی اپنے من سے کشتۂ یقین برآمد کیا جاتا ہے۔ بقول شاعر کہ؛
نامی کوئی بغیر مشقت کے نہیں ہوا
سو بار کٹا عقیق تب نگیں ہوا !!!
(واہ، کیا بات ہے۔۔۔ گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا۔ اس ایک شعر میں پورا مضمون چھپا ہے)
اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو یقین اک پُل ہے، جس پر سے گزر کر شہرِ واحدت کی سیر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص خود کو اس مشقت سے نہیں گزار سکتا اور دولتِ یقیں بھی حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ کسی صاحبِ بصیرت، صاحبِ یقین، مردِ مومن کی سنگت اختیار کرے کیونکہ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) سے جب یقین کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ فرماتے کہ ہم نے آقا پاک (علیہ الصلواۃ والسلام) کی بارگاہ سے یقین سیکھا، بلکہ ایسے سیکھا جیسے قرآن مجید سیکھا جاتا ہے۔ جس طرح گاڑی کی ٹینکی میں ایندھن ہی اسکے انجن کو چلانے کے لئے کافی نہیں ہوتا، بلکہ موبل آئل بھی نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے بغیر موبل آئل کے انجن تباہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح صرف طلب اور حکمت عملی ہی آپ کو کسی کام کی کامیابی کی نوید نہیں سنا سکتے، بلکہ یقینِ کامل کا ان کے ساتھ ہونا لازمی ہی نہیں، شرطِ اول بھی ہے۔
قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ “کیا لوگ پھر سے جہالت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔” (سورۃ المائدہ۔ 50) اس آیت مبارکہ میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ احکامات الٰہی اور اس کے فیصلوں کو ماننے کے لئے اس پر یقین رکھنا ضروری ہے۔ یقین کے کامل ہونے کی صورت میں انسان اللہ تعالیٰ کی تابعداری اور اطاعت قبول کرتا ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ” اسی طرح بے علم لوگوں نے بھی کہا کہ خود اللہ تعالیٰ ہم سے باتیں کیوں نہیں کرتا، یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ اسی طرح ایسی بات ان کے اگلوں نے کہی تھی، ان کے اور ان کے دل یکساں ہو گئے۔ ہم نے تو یقین والوں کے لئے نشانیاں بیان کردیں۔”( سورۃ البقرہ۔118) اہلِ ایمان ہونے کے لئے اہلِ یقین ہونا ضروری ہے۔ اللہ پاک اپنے بندوں پر اپنی نشانیاں ظاہر کرتا ہے، مگر وہ اپنے کامل یقین کی وجہ اس کے اسرار سے آشنا ہوتے ہیں۔ جب تک انسان اس دولت سے مالامال نہیں ہوتا، وہ شکوہ شکایت کے راگ الاپنے میں لگا رہتا ہے۔ دوسری صورت میں انسان انا اور تکبر کی بھینٹ چڑھ کر فنا ہو جاتا ہے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کا یقین پانی کے پار سلامتی کے ساتھ لے گیا، مگر فرعون اسی پانی میں اپنی فوج کے ساتھ غرق ہو گیا، کیونکہ وہ اس نعمت سے محروم تھا۔ انسان کے لئے باحکمِ الله کچھ بھی تسخیر کرنا نا ممکن نہیں ہے۔ آج اس دورِ پُر فتن میں اربابِ حکومت ہو یا عوام ہر کوئی وسائل کی کمی یا قسمت کا رونا روتے نظر آتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین نہیں رکھتے۔ اس معاشرے میں یقین کا فقدان ختم کر کے تمام مسائل کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ آج خدا کے ایک ہونے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں، مگر دلوں میں حوس، لالچ اور تکبر کے کئی خدا بنا کر ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ اسباب پیدا کرنے والے کے بجائے اسباب کی پیروی کرکے صراطِ مستقیم سے گمراہ ہو کے رہ گئے ہیں۔ اگر بحثیت ایک مسلمان آج اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی روح کو پا لیں تو پھر دنیا کی تاریخ میں ہم اپنا وہی کھویا وقار اور مقام حاصل کر سکتے ہیں۔