سورۃ الفیل میں ابابیل کا ذکر ہے، جس نے ابرہہ کی فوج
پرکنکریاں برسائیں تھیں۔

04/08/2023

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِؕ(۱)اَلَمْ یَجْعَلْ كَیْدَهُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍۙ(۲)وَّ اَرْسَلَ عَلَیْهِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَۙ(۳)تَرْمِیْهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّیْلٍﭪ(۴)فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ۠(۵)

 ترجمۂ؛ کیا تم نے نہ دیکھا کہ تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا؟ کیا اس نے ان کے مکر و فریب کو تباہی میں نہ ڈالا۔ اور ان پر غول در غول پرندے بھیجے۔ جو انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے تھے ۔ تو انہیں جانوروں کے کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔


اس سورت میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن اور حبشہ کے بادشاہ ابرہہ نے جب حج کے موسم میں لوگوں کو بیت اللہ کا حج کرنے کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا تو اُس نے اِس غرض سے صنعاء میں ایک کنیسہ (یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہ) بنایا کہ حج کرنے والے مکہ مکرمہ جانے کی بجائے یہیں آئیں اور اسی کنیسہ کا طواف کریں۔ عرب کے لوگوں کو یہ بات بہت ناگوار گزری اور قبیلہ بنی کنانہ کے ایک شخص نے موقع پا کر اس کنیسہ کو نجاست سے آلودہ کردیا۔ جب ابرہہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو اسے بہت طیش آیا اور اس نے قسم کھائی کہ وہ کعبۂ مُعَظّمہ کو گرا دے گا، چنانچہ وہ اس ارادے سے اپنا لشکر لے کر چلا۔ اس لشکر میں بہت سے ہاتھی بھی تھے اور ان کا پیش رَو ایک بڑے جسم والا کوہ پیکر ہاتھی تھا جس کا نام محمود تھا۔ ابرہہ جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچا تو اس نے اہلِ مکہ کے جانور قید کر لئے اور ان میں حضرت عبدالمطلب کے دو سو اونٹ بھی تھے۔ حضرت عبدالمطلب ابرہہ کے پاس آئے تو اس نے ان کی تعظیم کی اور اپنے پاس بٹھا کر پوچھا کہ آپ کس مقصد سے یہاں آئے ہیں اور آپ کا کیا مطالبہ ہے؟ آپ نے فرمایا : میرا مطالبہ یہ ہے کہ میرے اونٹ مجھے واپس کر دئیے جائیں۔ ابرہہ نے کہا: مجھے آپ کی بات سن کر بہت تعجب ہوا ہے کہ میں اس خانۂ کعبہ کو ڈھانے کے لئے یہاں آیا ہوں جو آپ کا اور آپ کے باپ دادا کا مُعَظّم و محترم مقام ہے، آپ اس کے لئے تو کچھ نہیں کہتے اور اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں ! آپ نے فرمایا: میں اونٹوں ہی کا مالک ہوں اس لئے انہی کے بارے میں کہتا ہوں اور کعبہ کا جو مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت فرمائے گا۔ یہ سن کر ابرہہ نے آپ کے اونٹ واپس کر دیئے، حضرت عبدالمطلب نے واپس آکر قریش کو صورتِ حال سے آگاہ کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ پہاڑوں کی گھاٹیوں اور چوٹیوں میں پناہ گزین ہو جائیں ، چنانچہ قریش نے ایسا ہی کیا اور حضرت عبدالمطلب نے کعبہ کے دروازے پر پہنچ کر بارگاہِ الٰہی میں کعبہ کی حفاظت کی دعا کی اور دعا سے فارغ ہو کر آپ بھی اپنی قوم کی طرف چلے گئے ۔ ابرہہ نے الصبح اپنے لشکر کو تیار ی کا حکم دیا تو اس وقت محمود نامی ہاتھی کی حالت یہ تھی کہ جب اسے کسی اور طرف چلاتے تو چلتا تھا لیکن جب کعبہ کی طرف اس کا رُخ کرتے تو وہ بیٹھ جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے لشکر پر سمندر کی جانب سے ابابیل پرندوں کی فوجیں بھیجیں اور ان میں سے ہر پرندے کے پاس تین کنکریاں تھیں ایک ایک دونوں پاؤں میں اور ایک چونچ میں تھی ، وہ پرندے آئے اور کنکر کے پتھروں سے انہیں مارنے لگے، چنانچہ جس شخص پر وہ پرندہ سنگریزہ چھوڑتا تو وہ سنگریزہ کسی بندوق کی گولی کی طرح جسم کے جس حصے پر لگتا اسے چیرتا ہوا دوسری طرف سے باہر نکل جاتا۔ اور ہر سنگریزے پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جس سنگریزے سے اسے ہلاک کیا گیا ،اس طرح ان پرندوں نے ابرہہ کے لشکریوں کو جانوروں کے کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔ جس سال یہ واقعہ رونما ہوا اسی سال سرکارِ دوعالمــــــــــمﷺ کی ولادت ہوئی۔

بحوالہ؛ خازن، الفیل، تحت الآیۃ: ۱ – ۵ ، ۴ / ۴۰۷