"حرکت زندگی ھے، بے حسی موت"

26/08/2022

بے حسی ایسی بیماری جس کا اب تک کوئی علاج دریافت ہوا ہے نہ آئندہ اس کا امکان ہے ، بے حسی انسان اور حیوان کا فرق مٹا دیتی ہے بلکہ ذی روح اور غیر ذی روح میں بھی امتیاز کی لکیر احساس ہی کھینچتا ہے ،
خواجہ میر درد تو احساس کو انسان اور فرشتوں کے مابین فرق کرنے کا پیمانہ سمجھتے ہیں بلکہ اسے انسان کی وجہ تخلیق قرار دیتے ہیں چنانچہ وہ گویا ہیں۔۔۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

انسان کی حقیقی زندگی یہی ہے کہ اس کے من میں احساس کا جگنو جگمگا رہا ہو اگر یہ مر جائے تو ایک جیتا جاگتا انسان مردہ لاش بن جاتاہے بہ قول کسے۔۔۔

موت کی پہلی علامت صاحب!
یہی احساس کا مر جانا ہے

افسوس! ہم جس ملک میں سانس لے رہے ہیں وہاں ہر طرف بے حسی کا راج ہے ، ہماری اشرافیہ جسے ہم حکمران طبقہ بھی کہتے ہیں اس بے حسی کی بیماری کا سب سے زیادہ شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام پر قیامت ٹوٹے اس کے کانوں پر پھر بھی جوں تک نہیں رینگتی ، زمین پھٹے کہ آسمان گرے اس طبقے پر کچھ اثر نہیں ہوتا ۔

پچھلے دو ماہ سے پورا ملک آفت کی لپیٹ میں ہے ، بارشوں کی وجہ اب تک ہزار کے لگ بھگ اموات ہوئیں ہیں ، ہزاروں گھر تباہ ہوچکے ہیں ، فصلیں برباد ہو چکی ہیں ، ہزاروں ہم وطن نقل مکانی پر مجبور ہیں لیکن ہمارے سیاست دان پہلے کی طرح اپنی سیاست بازی میں مگن ہیں ، کیا حکومت کیا اپوزیشن ، دونوں کو آفت زدہ عوام سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ وزیر اعظم 45 رکنی وفد کے ہمراہ قطر کی تفریح پر نکلا ہوا ھے، راجہ پرویز نگیاگرا فال سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اور مولانا فضل الرحمن بمع بیٹے سمر ووکیشن ترکی میں گزار رہے ہیں۔ عمران خان اپنے لاڈلے کو قانون کے شکنجے سے بچانے میں لگے ہوئے ہیں یوں پاکستان کی حکومت ، اپوزیشن ، عدلیہ اور میڈیا اس ایک معاملے میں سر کھپاتے نظر آ رہے ہیں اور غریب عوام کو سیلاب کی بے رحم موجوں کے حوالے کیا گیا ہے ۔اس رویے پر یہی کہا جا سکتا ؛

سنا ہے ڈوب گئی بے حسی کے دریا میں
وہ قوم جس کو جہاں کا امیر ہونا تھا

اس وقت ملک بھر میں ہمارے لاکھوں بھائی آفت کا شکار ہیں ، ان آفت زدہ بھائیوں کی مدد ہم سب پر فرض ہے ، متاثرین کی داد رسی اور بحالی کا کام صرف حکومت پر نہیں چھوڑنا چاہیے ، اس وقت ملکی معیشت کی جو ناگفتہ بہ صورت حال ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے ایسے میں بحیثیت قوم ہمیں اپنی ذمے داری کا احساس کرنا ہوگا ، الحمدللہ بہت سارے ادارے اور افراد اپنے آفت زدہ بھائیوں کے لئے کام کر رہے ہیں ہمیں ایسے اداروں اور افراد کا دست بازو بننا ہوگا ، یہ ہمارا قومی فریضہ بھی ہے اور دینی تقاضا بھی ، ہمارے پیغمبر کا فرمان ہے “واللہ فی عون العبد ماکان العبد فی عون اخیہ”(ترمذی) اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے )

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
اللہ تعالی سے دعا ھے کہ اس تکلیف دہ صورتحال سے ہمارے متاثرہ علاقوں اور لوگوں کو جلد سکھ کا سانس نصیب ہو۔ یہ مصیبت جلد ٹل جائے اور حکمران بھی ہوش کے ناخن لیں کہ آئندہ مون سون سیزن سے پہلے ہی کوئ تو سدباب کر رکھیں۔ ہم اپنے بچپن سے یہ تباہ کاریاں دیکھتے آ رہے ہیں، آج تک کسی بھی حکومت نے کوئ پیشرفت نہیں کی، ماشاءاللہ کیا کہنے ان کی بے حسی کے۔
بقول اقبال۔۔۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا