قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

27/07/20253

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
خیر و شر، نیکی بدی، حق و باطل اور حسینیت و یزیدیت کے درمیان معرکہ آرائی ازل سے جاری ہے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ سچ کو ہزار پردوں میں ملفوف اور ملبوس کرکے بھی چھپایا نہیں جاسکتا۔ جس طرح سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع نہیں ہوسکتا۔ بن بادل برسات نہیں ہوسکتی، دوپہر سے قبل شام نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح خیر پر شر غالب آسکتا ہے نہ بدی نیکی کو ڈھانپ سکتی ہے۔باطل حق کو زیر و زبر کرسکتا ہے نہ یزیدیت کی حسینیت کے مقابلے میں جیت ہوسکتی ہے۔ فتح و شکست کا ہر کسی کے پاس اپنا پیمانہ، معیار اور سوچ ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات کسی عمل اور اقدام کے نتائج مدتوں بعد واضح ہوتے ہیں تاہم انسان جو دیکھتا ہے اس کے مطابق نتیجے کا تعین کر لیتا ہے۔ خدا کے ہاں دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں۔

یزید کی جدید سامان حرب سے لیس سپاہ نے مدینہ النبی سے چلنے والے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی قیادت میں معصوم بچوں اور خواتین پر مشتمل مختصر قافلے پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ ایک طرف بے سرو سامانی کی حالت میں اہلبیت دوسری طرف اہل ابلیس، ایک طرف حق، دوسری طرف باطل، ایک طرف حسینیت دوسری طرف یزیدیت، حسینیت پر ہر قسم کا ظلم و جبر روا، ہر طرف سے ناکہ بندی، رسد کے راستے مسدود، جانوروں تک کو ملنے والے دریا کے پانی تک آل رسول کی رسائی مفقود، اوپر سے قیامت کی گرمی بدن کو جھلسائے دے رہی تھی۔ گلے پیاس سے خشک۔۔۔ لیکن یہ نبی کا نورالعین۔۔۔ علیؓ کا خاندان، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا کے جگر گوشے تھے۔
لشکر یزید کا ایک ہی مطالبہ” یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلو“ تمام مظالم، جبر اور مصائب کے باوجود حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی۔ حق پر باطل کو حاوی نہ ہونے دیا۔ یزیدی جس مقصد کیلئے آئے تھے اس میں ناکام ٹھہرے حضرت امام حسین علیہ سلام کو یزید کی بیعت پر قائل نہ کرسکے تو اس نے نبی کے خاندان پر یلغار کردی جس کا کلمہ بھی پڑھتے تھے۔ امام کا سر تن سے جدا، ساتھیوں کے جسم نیزوں سے چھلنی کئے۔ ایسا ظلم چشم فلک نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔
اقتدارکے نشے میں ظلم کی انتہا، انسانیت کی ابتلا، حضرت امام حسینؓ اور ساتھیوں کی شہادت پر ابن زیاد اور اسکے ماتحت فوج نے جشن منایا۔ اس کے حواریوں نے شادیانے بجائے اسے اپنی فتح و نصرت قرار دیا۔ کیا واقعی یہ یزیدیوں کی فتح تھی؟ ہرگز نہیں۔۔۔ یزیدی جس کو فتح و نصرت اور کامرانی قرار دے رہے تھے یہی دراصل یزیدیت کی موت، ذلت اور رسوائی تھی…

قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کربلا میں اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر حسین ابن علی رضی اللہ اور ساتھیوں نے دین مصطفوی کو زندہ کر دیا خود بارگاہ نبوی میں سرخرو ہوگئے۔ اسلامی دنیا کا کوئی خطہ قریہ اور گلی ایسی نہیں جہاں امام حسین علیہ سلام کے نام پر نام رکھنے والے موجود نہ ہوں۔ یزید کے نام پر کسی نے اپنی اولاد کا نام رکھا؟ ایسا ہی پست مرتبہ و مقام یزید کے حواریوں کے حصے میں آیا۔ وقتی مفادات و مقاصد کا حصول ان کو نفرت و رسوائی کی پستیوں میں لے گیا۔
بدی اور شر وقتی طور پر سر چڑھ کر بول سکتا ہے، مگر اسے دوام نہیں، ہمیشہ خیر اور سچ کو ہی دوام حاصل ہے۔ دھوکے، فریب اور جھوٹ کی کوئی عمر نہیں ہوتی، چرب زبانی سے حقیقت چھپائی جاسکتی ہے، لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکتی ہے مگر کب تک؟ ایسا کرنے والے اقتدار کی منزل پاسکتے ہیں مگر مقدر اوندھے منہ گرنا ہی ہوتا ہے۔
[ ] عوام کو تو اندھیرے میں رکھا جاسکتا ہے، مورخ کو غچہ دیا جاسکتا ہے مگر قدرت کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ دولت ہاتھ کا میل اور صحت وتندرستی تک اس کا ساتھ ہے۔ سونے کی قبر میں بھی اپنے ہی اعمال کا جواب دینا ہے۔ آج بھی حسینیت اور یزیدیت کے مابین معرکہ جاری ہے۔ کسی بھی جگہ جہاں کہیں بھی جو سچ پر ہے، وہی حق پر ہے۔ یہی حسینیت ہے۔ فتح و نصرت حسینیت کا مقدر ہے۔ جھوٹ، دھوکہ اور فریب یزیدیت ہے، جس کا غرور چور چور ہونا ہی اٹل حقیقت ہے۔جھوٹ اور مکاری کاساتھ دینے والے اپنا انجام سوچ لیں۔ ان کا شمار یزید، شمر، میر جعفر اور میر صادق کی صفوں میں ہوگا۔ نسلوں کو غدار ابن غدار کے طعنے ملتے رہیں گے۔ آج کیلئے واقعہ کربلا کا سبق یہی ہے…

“ڈٹ جاﺅ تم حسین کے انکار کی طرح”
سیدناامام حسین صرف ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظریہ کا نام ہے-
ایک اصول اور ایک نظامِ حیات کا نام ہے۔
حُسینیت امن و سلامتی اور حق کی علامت ہے۔ حسینیت دین فطرت اور انسانیت کی اساس ہے۔ حسین ابن علی رضی اللہ عنہا کا تعلق پوری دنیائے انسانیت سے ہے۔
شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی فرماتے ہیں:
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین۔