مولانا جلال الدین رومی
08/07/2023
چاند ستاروں کی حقیقت کیا ہے؟ زمین سے بہت دور کیسے اڑنا ہے، مہینوں اور برسوں کا سفر گھنٹوں میں کیسے طے کرنا ہے، کس طرح سے موذی ترین بیماریوں سے بچنا ہے، انسانی صحت کی بہتری کے لیے کیا تدبیریں ہوسکتی ہیں، وباؤں سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟ آج نہیں تو کل سائنس کے پاس اس کا کوئی حل آہی جائے گا۔ سائنس نے پچھلی صدیوں میں اتنی ترقی کی ہے کہ دنیا کے نقشے پر ناقابل یقین تبدیلیاں آ چکی ہیں اور یہ سائنس ہے جس کی بدولت ہم جانتے ہیں کہ انسان اس کرہ ارض پر کتنے برسوں سے موجود ہے۔ 200سے 300 ہزار سال پہلے ہومیو سپین (Homo sapeins) اپنے آباؤ اجداد کے مقابلے میں نشوونما پانا شروع کی۔
پچاس ہزار سال کے بعد زبان یا لینگویج نے ترقی کا سفر اختیار کیا۔ ذہن کا استعمال بڑھنا شروع ہوا اور یوں دھیرے دھیرے انسانی سفر بھی بڑھتا چلا گیا۔ جب تک دنیا باقی ہے، ترقی کے سفر کا رکنا ناممکن ہے۔زندگی کا پہیہ چلتا رہے گا۔ لوگ آتے رہیں گے اور دنیا سے رخصت ہوتے رہیں گے۔ اس دنیا کے بعد دوسری دنیا کے ماننے والوں کے لئے تو ایک قطرہ بھی چشم کشا ہے۔ قطرہ جو بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔ ہوا کا مسکن بن جاتا ہے۔ پھر بادلوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ بارش اور پانی کی صورت میں دوبارہ اس دنیا کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ قطرہ جب سمندر میں لوٹتا ہے تو سفر کا اختتام ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا پیغام اللہ کے نبیوں کے ذریعے دنیا تک پہنچتا رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا اور بزرگوں ،درویشوں اور صوفی شاعروں کی ایک قابل قدر فہرست ہے جنہوں نے زندگی کی حقیقتوں کو آشکار کیا، تدبر اور تفکر کیا اور لوگوں کو تعلیم دی ۔ تیرویں صدی کے مولانا جلال الدین روم ، مثنوی معنوی کے خالق، خطیب، مدرس، ظاہری علوم کے ماہر، قانون اور فقہ کو جاننے والے مذہبی سکالر تھے۔ مولانا روم کی زندگی علم و فکر اور ان کی شاعری کو جاننے کے لیے دنیا بھر کے لکھنے والوں نے فارسی زبان کو سیکھا تاکہ وہ اس بے بہا خزانے سے مستفید ہو سکیں۔ مولانا روم کو آج بھی امریکہ میں بہترین فلسفی شاعر کا درجہ حاصل ہے۔
منگولوں نے جب وسطی ایشیا پر حملہ کیا تو مولانا اپنے خاندان اور مریدوں کے ساتھ موجودہ افغانستان بلخ سے مغرب کی طرف روانہ ہوگئے۔ سفر وسیلہ ظفر بن گیا اور ایران میں صوفی شاعر عطار اور سننائی سے مولانا کی ملاقات ہوئی۔ مولانا اپنے والد کے پیچھے (جو خود وقت کے بڑے صوفی بزرگ تھے ) چلے آرہے تھے۔ حضرت عطار نے انہیں دیکھا اور کہا “دریا کے پیچھے سمندر آرہا ہے”۔ (مجھے امید ہے آپ اس تشبیہ کو سمجھ گئے ہوں گے) انہوں نے اپنی کتاب “اسرار نامہ” مولانا روم کو عطا کی۔ اور اس کے بعد مولانا کی زندگی بدل گئی ،جو پہلے ہی علم و حکمت کے خزانے سے مزین تھی۔اب روحانیت نے جگہ بنالی تھی اور اسرار و رموز کی طرف سفر شروع ہوگیا۔ سنہ1228 میں مولانا کے والد محترم کو اناطولیہ واپس بلایا گیا اور مدرسے کا منتظم مقرر کر دیا گیا۔ والد کے وصال کے بعد 25 سال کی عمر میں مولانا روم نے یہ عہدہ سنبھال لیا اور اس کے ساتھ مولانا نے ایک مرید کی طرح نو سال تک اپنے استاد شیخ برہان الدین کے ساتھ گزارے۔ یہاں سے ان کی پبلک لائف ہوئی اور آپ نے اسلامک جیورسٹ، فتوی اور مساجد میں خطبات کا سلسلہ شروع کردیا۔ مولانا کی زندگی میں ابھی ایک ایسا واقعہ پیش آنا تھا جس کے بعد مولانا روم کی زندگی میں کوئی کمی نہ رہی۔ یہ واقعہ 15نومبر سنہ 1244 میں پیش آیا جب ان کی ملاقات درویش صفت حضرت شاہ شمس الدین تبریزی رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی۔ حضرت شمس تبریزی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قریہ قریہ گھوم رہے تھے ان کو ایسے دوست کی تلاش تھی جو ان کی کمپنی کا متحمل ہوسکے اور جس کو وہ اپنی بات سمجھا سکیں۔ ایسے میں انہیں غیبی آواز آئی کہ اگر تم کو ایسا ساتھی مل جائے تو بدلے میں کیا دو گے؟ انہوں نے فورا کہا “میرا سر” آواز نے کہا کہ جس کو تم تلاش کر رہے ہو وہ قونیا کا جلال الدین رومی ہے۔ شمس تبریز قونیا روانہ ہو گئے وہاں ایک تالاب کے کنارے مولانا رومی اپنے شاگردوں کو تعلیم دے رہے تھے۔کچھ کتابیں ان کے سامنے رکھی تھیں۔ شمس تبریز جو دیکھنے میں فقیروں کے حلیہ میں تھے۔ انہوں نے کتابوں کو دیکھ کے پوچھا یہ کیا ہے ؟ مولانا روم نے جواب دیا ، “یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے”۔یہ سن کر درویش نے وہ کتابیں اٹھائیں اور تالاب میں پھینک دیں۔مولانا چیخ پڑے ” یہ تو نے کیا کیا اتنی قیمتی کتابیں پانی میں پھینک دیں” یہ سن کر درویش پانی میں اتر گئے اور تمام کتابیں پانی سے نکال کر باہر رکھ دیں جو بالکل خشک تھیں۔ نہ کوئی حرف مٹا تھا اور نہ ہی کتابیں گیلی تھیں۔ یہ دیکھ کر مولانا روم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ درویش نے جواب دیا “یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے “۔ اس کے بعد سے مولانا روم اور حضرت شمس تبریزی کا اکٹھا سفر شروع ہوا۔ مولانا سے ملاقات کے بعد شمس الدین تبریزی کی تلاش بھی ختم ہوئی۔ اب وہ تمام علوم مولانا کو منتقل کر رہے تھے۔ مولانا روم اور حضرت شمس تبریزی کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا خطبات ،شریعہ ، قانون ،اور ایک مکمل سکالر تھے۔حضرت شمس کے بعد ان کا خدا سے رابطہ مضبوط ہو گیا۔ ایک وقت تھا جب مولانا روم کے پیروکار حضرت شاہ شمس الدین تبریزی کے خلاف ہو گئے تھے اور وہ مولانا کو چھوڑ کر چلے بھی گئے تھےجس کے بعد مولانا روم بے حد بے چین اور مضطرب ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کے صاحبزادے کو خود جا کر حضرت شمس کو واپس لانا پڑا۔ ان کے پیروکاروں کو بھی یقین ہوگیا کہ مولانا کو ان کے دوست سے الگ کرنا درست نہیں۔ ایک ایسی ملاقات میں دونوں رات کو کمرے میں بیٹھے مکالمہ کر رہے تھے کہ کسی نے پچھلے دروازے سے مولانا شمس کو بلایا وہ دروازے سے باہر گئے اس کے بعد واپس نہ آئے۔ مولانا روم نے گلی گلی شہر شہر چھان مارا لیکن حضرت شمس تبریزی کا کہیں پتا نہ پایا۔بالآخر انہوں نے سوچا میں کسے ڈھونڈ رہا ہوں۔ وہ تو میرے اندر ہے وہ میرے ذریعے بولتا ہے۔ میں خود ہی تلاش میں ہوں۔ شمس تبریزی صاحب کہاں غائب ہو گئے اس سلسلے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کو مولانا روم کے پیروکاروں نے قتل کر ڈالا لیکن ثبوت کسی بھی بات کا موجود نہیں ہے۔ مولانا نے جب پہلی مرتبہ اپنے دوست درویش کے ساتھ درویشوں کی چکر کی صورت میں رقص کیا تو لوگوں نے اعتراض اٹھایا کہ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن مولانا نے کہا کہ وہ جذبہ جو خدا سے رابطے کے لئے مددگار ہے اور خدا کی طرف توجہ مرکوز کرواتا ہے، وہ غلط نہیں ہو سکتا۔ مولانا کی تعلیمات سے ہر طبقہ فکر اور مذاہب کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ مسلم اسکالر کے طور پر انہوں نے اللہ کی توحید بیان کی۔ خدا کی محبت، تڑپ اور آگ، انسان کے اندر اس طرح بھڑک اٹھے کہ “میں” ختم ہو جائے۔ باقی اور ہمیشہ رہے اللہ کی ذات۔
مولانا روم کے صاحبزادے نے ایک نظم کی طرف توجہ دلائی کہ کس طرح سے ان کی ایک سکالرز سے درویش کی طرف ٹرانسفارمیشن ہوئی۔ایک فتویٰ لکھنے والا شیخ ،شاعر بن گیا اور خدا کی انتہا درجے کی محبت نے اس کے دل سے دنیاوی لذتوں سے خالی کردیا۔جس قدر مادی ترقی کی رفتار تیز ہوگی ،اسی قدر روحانیت کی ضرورت بڑھتی چلی جائے گی۔ صوفی ازم پر بہترین کتاب ،مثنوی مولانا روم ہے، جو چھ جلدوں پر مشتمل ہےاور جس میں 25 ہزار اشعار یا 50000 لائنز موجود ہیں۔ مولانا روم کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے کے لئے ان کے خطبات اور مثنوی کو پڑھنا ضروری ہے ۔ مولانا، سنہ 1273 میں قونیا میں فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔
ایک شعر کا ترجمہ ہے کہ ،ہمارے مقبرے کو زمین پر نہ ڈھونڈو بلکہ اپنے دلوں میں ہمیں تلاش کرو۔۔
مولانا رومی سے کسی نے پوچھا کہ زہر کیا ہے ؟ فرمایا “ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو وہ زہر ہے جیسے قوت، اقتدار ،دولت ،بھوک ، لالچ، محبت اور نفرت۔