بارشیں باعث رحمت ہوں زحمت نہ ہوں
28/06/2023
اللہ تعالی نے ہمیں ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے جن کا نہ ہم شمار کر سکتے ہیں اور نہ ہی شکر ادا کر سکتے ہیں۔ ان نعمتوں میں سب سے اہم صحت و تندرستی اور جسم کے تمام اعضاء کا صحیح کام کرنا ہے اس کے علاوہ مختلف موسم اور ہر موسم کے اپنے پھل اور سبزیاں ہیں جن کی اہمیت اور افادیت سے کسی بھی طرح منہ نہیں موڑا جا سکتا۔
ہم بہت خوش قسمت ہیں کیوں کہ اللہ تعالی نے ہمیں گرمی، سردی، بہار اور خزاں کے علاوہ برسات کے موسم سے بھی نوازا ہے۔ کتنی خوبصورت بات ہے کہ ایک ننھا سا بیج زمین میں بویا جاتا ہے جو مختلف پودوں ’بیلوں اور تن آور درختوں میں بدل جاتا ہے پھر اس پر رنگ برنگے اور دل کو لبھانے والی خوشبو کے حامل پھول اور پھل و سبزیاں اگتی ہیں جن میں ہمارے لئے کئی فوائد چھپے ہوئے ہیں۔ ان پودوں، پھلوں اور سبزیوں کو پروان چڑھنے یا پکنے کے لئے تیز دھوپ اور کبھی بارش کے پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ برسات کا پانی ان کی افزائش کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
اللہ تعالٰی قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ :
فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
”تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے“
زندگی بہت خوبصورت ہے اور درپیش مسائل اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں ہمیں سوچنے اور محنت کرنے پر اکساتے ہیں اگر یہ مسائل نہ ہوں تو ہماری زندگی یکسانیت کی وجہ سے بوریت کا شکار ہو جائے گی۔ اب ان مسائل کو ہم کیسے حل کرتے ہیں یا ان کو اپنے لئے چیلنجز یا مواقع میں کیسے تبدیل کرتے ہیں یہ ہم پر اور ہماری سوچ پر منحصر ہے۔
قدرت ہمیں لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرتی ہے لیکن ہم محدود وسائل کی بدولت ان سے استفادہ نہیں اٹھا سکتے۔ جیسے ہی برسات کا موسم شروع ہوتا ہے تو موسم بہت خوبصورت ہو جاتا ہے۔ آسمان نہ جانے کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے۔ پل میں بارش اور دوسرے ہی لمحے سورج کی تیز کرنیں اپنے جوہر بکھیرتی ہیں۔ یہ بھی اللہ ہی کی قدرت ہے کہ کہیں بارش ہوتی ہے اور کہیں نہیں ہوتی حالانکہ شہر ایک ہے ملک ایک ہے لیکن ہر علاقے کا موسم مختلف ہے۔
پانی کی قلت اور خشک سالی کے ستائے لوگوں کی دعائیں رنگ لے آئیں اور بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن کچھ اداروں اور افسروں کی نا اہلی کی وجہ سے اس برستے پانی سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ سالوں سال سے یہی سلسلہ چلتا آ رہا ہے لیکن ہم کوئی تدبیر نہیں کر پاتے کہ اس پانی کو ذخیرہ کر لیں۔ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ پاکستان پانی کی قلت کی طرف جا رہا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے چلی گئی ہے تو پھر اس آسمانی تحفے کو محفوظ کرنے کے انتظامات کیوں نہیں کیے گئے۔ گزشتہ بارشیں بھی زحمت ثابت ہوئیں۔ ہم بلوچستان کی تباہی اور قیمتی جانوں کے نقصان کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کر سکتے۔
ایک زمانہ تھا کہ برسات کے موسم سے خوب لطف اٹھایا جاتا تھا۔ کھانے پینے کا خاص اہتمام ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب بارش رحمت سے زیادہ زحمت بن گئی ہے۔ یہ کسی خاص شہر اور علاقے کی بات نہیں ہے بلکہ پورے ملک کا ایک ہی حال ہے۔ اس کے پیچھے ہماری نا اہلی ’ناقص اقدامات اور نامناسب حکمت عملی ہے کہ پل، سڑکیں اور سوسائٹیاں بناتے وقت نکاسی آب کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ جیسا پہلے کے دور میں خاص طور پر رکھا جاتا تھا۔ تفریح گاہوں، گلی کوچوں اور سڑکوں پر پھینکا گیا کچرا بھی پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ بنتا ہے اور یہ کچرا بھی ہم ہی پھینکتے ہیں جس پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ اب آبادی میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے زمین پانی جذب نہیں کر پاتی کیوں کہ ہر طرف بلند و بالا عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ گندے پانی کے نالے کھلے پڑے ہیں جو برسات میں بھر جاتے ہیں اور ان کا گندا، آلودہ پانی سڑکوں، گلیوں میں بہتا ہوا مستیاں کرتا ہوا نظر آتا ہے جس کو نکالنے کا کوئی انتظام نہیں۔ جو کئی مضر صحت بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ گندا پانی لوگوں کے گھروں میں بھی داخل ہو جاتا ہے اب یہ بتائیں کہ ایسے میں ایک عام آدمی کیسے بارش جیسی رحمت سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
ہر سال کی طرح محکمہ موسمیات تنبیہ کرتا ہے کہ بارشیں تباہی لا سکتی ہیں لیکن محکمے اور ادارے جن کو اپنے مفاد کے آگے کچھ نظر نہیں آتا یا فرق نہیں پڑتا اور وہ ان آفات سے نمٹنے کے لئے کوئی مناسب اقدامات نہیں کرتے۔ پانی ذخیرہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کی نکاسی کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جہاں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے وہاں ہم آج بھی اپنے بنیادی مسائل میں ہی گھرے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو بارشیں وہاں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ ممالک اپنے بہترین اور جدید انفرا اسٹرکچر کی وجہ سے اس موسم سے باقاعدہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہمارے متعلقہ حکام کو چاہیے کہ مندرجہ ذیل کام کریں تاکہ مسائل کو حل کرنے کی طرف لے جایا جا سکے۔
1۔) تعمیرات کے وقت نکاسی آب کا خاص خیال رکھا جائے۔
2۔) تعمیراتی منصوبوں کو جلد مکمل کیا جائے یا طوالت کا شکار نہ کیا جائے تاکہ کھدائی کی گئی جگہ دیگر مسائل کو جنم نہ دے۔
3۔) بارش کے پانی کو زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کیا جائے تاکہ مستقبل میں پانی کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
4۔) ندی نالوں، تفریح گاہوں، گلی کوچوں اور محلوں کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال کیا جائے تاکہ برسات میں پانی کے بہاؤ میں مشکل پیش نہ آئے۔
5۔ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تاکہ اضافی پانی سمندر میں پھینک کر ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔
6۔ برسات کے دنوں میں تمام علاقوں میں اسپرے کیا جائے تاکہ کھڑے پانی میں پیدا ہونے والے مچھروں سے نجات حاصل ہو سکے۔
بارش اللہ تعالٰی کی رحمت ہے اس کو زحمت میں تبدیل نہ کیا جائے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیسے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے اور دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ صرف مناسب حکمت عملی اختیار کرنے اور ہمت کر کے اپنی ذمہ داریاں نبھا کر ہم ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔