قربانی، فدایت کا بہترین نمونہ

22/06/2023

اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے محبوب بندوں کو آزمائشوں میں ڈالتا رہا ہے، بالخصوص ابنیائے کرام طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرے ہیں ۔ ان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کئی بار اور مشکل ترین آزمائشوں سے دوچار ہوئے اور اللہ کے فضل و کرم سے وہ ہر مرتبہ کامیاب و کامران رہے۔ حضرت ابراہیم نے ایسی قوم اور ایسے علاقے میں آنکھیں کھولیں تھیں جہاں کفر و بت پرستی اور شرک کا دور دورہ تھا لیکن ان تمام خرافات کے باوجود آپ جادۂ حق سے وابستہ رہے اور حکمت کے ساتھ بندگان خدا کو دین حق اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا پہلا امتحان اس وقت لیا جب انہیں آگ میں پھینکا گیا۔ آپ اس آزمائش میں پورے اترے اور جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے دعوت حق سے پیچھے نہ ہٹے آپ کے رشتہ دار اور قوم آپ کے جانی دشمن ہو گئے اور آپ کو رسی سے باندھ کر 40 دن پہلے سے دھکتی آگ کے آلاو میں پھینکنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ آپ علیہ سلام اللہ پر یقین کامل رکھتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں دعا کرتے جاتے۔ اللہ کی شان دیکھئیے، جب آپ کو آگ میں پھینکا گیا تو اللہ تعالی نے آگ کو حکم دیا کہ ٹھنڈی ہو جا ” قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ : ہم نے فرما دیا اے آگ! تو ٹھندی پڑ جا اور ابراہیم ( علیہ السلام ) کے لئے سلامتی بن جا۔
آپ کی آزمائشوں کا سلسلہ یہیں بند نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کئی اور امتحان لئے۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ اور چہیتے و اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل کو ویران و بیابان سرزمین پر چھوڑ آؤ۔ اس وقت دور دور تک مکہ میں کوئی آبادی نہ تھی۔ ایسی اجاڑ جگہ اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر واپس آجانا جبکہ وہاں نہ کوئی انسان تھا اور نہ ہی دانہ پانی کا نام ونشان، ایسی جگہ چھوڑ آنا سخت ترین امتحان تھا۔ (اسی سلسلے کا ایک مضمون ” صفا اور مروہ ایک عورت کے صبر کی کہانی، میں نے کچھ عرصہ پہلے آپ گروپ ممبران کی خدمت میں پیش کیا تھا)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تیسری آزمائش انتہائی عظیم الشان ہے۔ آپ کو خواب میں بتایا گیا کہ اپنی سب سے پیاری چیز اللہ کی راہ میں قربان کریں۔ آپ نے صبح ہوتے ہی دو عدد اونٹ اللہ کی راہ میں ذبح کر ڈالے۔ یہ خواب آپ کو متواتر تین روز تک آتا رہا۔ بالآخر چوتھی رات کو اللہ تعالی کی طرف سے اشارہ ملا کہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کریں۔ بی بی ہاجرہؓ نے نہایت صبر و تحمل سے کہا: خدا کا حکم ہے تو میں بھی اس کی رضا میں راضی ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیلؑ کو ساتھ لے کر جا رہے تھے تو راستے میں ابلیس سامنے آ گیا۔ شیطان نے حضرت اسماعیل کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تمہارا باپ تمہیں ذبح کرنے کے لئے جا رہا ہے۔ حضرت اسماعیل نے کہا کہ بھلا کوئی باپ بے گناہ اپنی اولاد کو ذبح کر سکتا ہے۔ پھر حضرت اسماعیل نے اپنے پدر بزرگوار سے پوچھا۔ ابا جی! آپ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا۔ میرے بیٹے میرے لخت جگر مجھے اللہ نے کہا ہے کہ میں تمہیں اس کے لئے قربان کر دوں۔ یہ سن کر حضرت اسماعیل نے کہا۔ میں اللہ کے لئے بصد شوق اور بخوشی قربان ہونے کے لئے حاضر ہوں۔
یٰآ أَبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴْمَرُ سَتَجِدُنِی انْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ“ (ابا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیاگیا ہے اسے کرگذرئیے، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے)
آپ اللہ تعالیٰ کے حکم میں ذرا سی بھی تاخیر نہ کریں۔ کیونکہ شیطان مردود چاہتا ہے کہ ہمیں سیدھے راستے سے بھٹکا دے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل نے شیطان کو مایوس کرنے کے لئے کنکریاں ماریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو لے کر منیٰ کے مقام پر آئے اور ایک جگہ انہیں لٹا دیا۔ حضرت اسماعیل کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور پھر اپنی آنکھوں پر بھی پٹی باندھی۔ تا کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر دونوں باپ بیٹے کی محبت تعمیل حکم میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کا نام لے کر حضرت اسماعیل کے گلے پر چھری پھیر دی۔ جب وہ اپنی دانست میں اپنے بیٹے کو ذبح کر چکے تو آواز آئی۔ ”قَدْ صَدَّقْتَ الرُّوٴْیَا انَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ“  (تم نے خواب سچ کردکھایا ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں) یعنی اللہ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمہارے کرنے کا تھا اُس میں تم نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور آزمائش میں پورے پورے کامیاب رہے، اور یہ ادائے قربانی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے لیے یادگار اور قربِ خداوندی کا ذریعہ بنادیا جسے امت مسلمہ ہر سال مناتی ہے، اور اِس قربانی میں درحقیقت مسلمانوں کے اِس عقیدے کا اعلان ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ رب العزت کے حکم کے آگے اپنی عزیز سے عزیز ترین چیز کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اے ابراہیم آنکھیں کھول دو۔ دیکھا کہ ایک تندرست دنبہ ذبح کیا ہوا سامنے پڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پکارا۔ اے ابراہیم! بے شک سچ کر دیا تو نے اپنے خواب کو۔ اسی طرح ہم جزا دیتے ہیں۔ احسان کرنے والوں کو۔ اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر سلام بھیجا ہے کہ اس سر زمین پر اللہ کا گھر تعمیر کرو تا کہ لوگ آئیں اور اپنے رب کے گھر کا طواف کریں۔ آپ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ یہ وہی بیابان سنسان جگہ تھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ اور شیر خوار بچے اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے بے یار و مددگار چھوڑ آئے تھے۔ بھوک و پیاس کی شدت سے ننھے بچے نے روتے ہوئے ایڑیاں رگڑیں تو زم زم کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ جو آج بھی جاری و ساری ہے اور بی بی ہاجرہ کی دو پہاڑوں کے درمیان کی سعی، کہ کہیں کچھ میسر آجائے، اس دوران اپنے روتے بلکتے بچے کو مٹر مٹر کر پریشانی کے عالم میں دیکھتے رہنا۔۔۔ مناسک حج و عمرہ کا رکن ہے۔ اللہ اللہ کیسی عظیم قربانیاں ہیں، جو اللہ تعالی اپنے چنے ہوئے بندوں سے لیتا ہے۔
حج کے ارکان میں خانہ کعبہ کا طواف کرنا، صفا اور مروہ کی سعی کرنا، منی میں کچھ دن قیام کرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا اور شیطان کو کنکریاں مارنا، حج کا سب سے اہم رکن وقوف عرفات ہے۔ اس دن جو بھی یہاں داخل ہو گیا سمجھو اس کا حج ہو گیا۔ جانور کی قربانی کرنا، یہ تمام کاوشیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے منسوب ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں بھی انبیاء علیہم اجمعین کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔