سیاستدانوں کے ہاتھوں پاکستان کی تباہی کا مشاہدہ

20/05/2023

“سیاسی داو پیچ میں الجھنے سے بہتر ہے ریاست کو مضبوط بنائیں، کیونکہ ریاست ہے تو سیاست ہے”

سیاستدانوں کے ہاتھوں پاکستان کی تباہی کا مشاہدہ کرنا ہے تو موجودہ حالات اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان کے رویے دیکھیں، ان کی ترجیحات پر نظر دوڑائیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اُن کے لیے نہ تو ملک اہم ہے نہ ہی عوام۔
 اُن کی ساری سیاست اپنے ذاتی وسیاسی مفادات کے اردگرد گھومتی ہے ۔ اُن کی سیاست کا مقصد صرف اور صرف اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنا یا اقتدار کا حصول ہے، چاہے اس کے لیے جو بھی کرنا پڑے وہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اپنے سیاسی مفادات کا ٹکراؤ اگر ملک کے مفاد سے ہو تو یہ سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کو مقدم جانتے ہیں اور اُنہی کے حصول کے لیے کام کرتے ہیں، اس کا چاہے ملک کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ 

پاکستان کے سیاسی سرکس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو یہ الفاظ سخت لگیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بہت ہی مختصر عرصہ میں یہ سرکس شروع ہوچکا تھا جو آج تک اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔ اس سرکس سے محظوظ ہونے والے دوسروں کو بھی زبردستی اس سے لطف اندوز ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ہم سب نے حالیہ سیاسی بحران میں یقیناً اس صورت حال کا سامنا کیا ہوگا کہ ہمارے فون سیاسی ٹائپ پیغامات سے بھرتے رہے۔ کیونکہ ہمارے فیملی اینڈ فرینڈز (contacts) اپنی سیاسی پسند ناپسند کو ہم پر تھوپنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا ہو یا واٹس اپ کے پرائیوٹ گروپس، بحث کا ایک نا تھمنے والا طوفانِ بدتمیزی ہمارے ذہنوں کو مسلسل آلودہ کررہا ہے۔ کوئی عمران خان کی حکومت کو گرانے میں بیرونی سازش کے عمل دخل پر روشنی ڈال رہا ہے، تو کوئی مراسلے کی کہانی کو ان کی سیاسی چالیں قرار دے رہا ہے۔ پرائیویٹ گروپس کے وہ ممبران جو کہ عرصہ دراز سے خاموش ممبر کی حیثیت سے موجود تھے بحث میں نا صرف حصہ لیتے نظر آرہے ہیں بلکہ اپنی تربیت کا بھی پتہ دے رہے ہیں۔

آج کل آپ چاہے اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھے ہوں یا دوستوں کی محفل میں، ساتھ کام کرنے والے ہوں یا پڑوسی ، ہر جگہ ہر محفل میں ایک ہی طرح کی گفتگو سنائی دے رہی ہے۔۔۔ “کوئی بتائے گا کہ کس نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا کہا، تو دوسرا اندر کی خبر دے گا کہ فلاں اس کے پاس اس لیے گیا”۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ پھر تھوڑی گرماگرمی شروع ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے حق میں زبان بکف میدان میں اتر آتا ہے۔ تاہم پس پردہ حقائق سے کوئی بھی واقف نہیں ہوتا اور نہ ہی جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ بلکہ یہ بات تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہوتا ہے کہ حقیقت کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ سیاسی نیم خواندہ سماج صرف کامل اطاعت جانتا ہے۔ بطور معاشرہ ہم صرف نفرت اور عقیدت کے جذبات سے واقف ہیں۔ دلیل یا حق کی تلاش کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کیونکہ سچ کی تلاش میں تو محنت لگتی ہے۔ اور ویسے بھی ہم تو صرف انا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جس پارٹی کے ہم سپورٹر ہیں اس کا ہر گناہ معاف ہے۔ دوسرے کا دامن داغ دار ہے۔ اس انا کی جنگ میں ہم اپنے رشتہ داروں دوستوں یہاں تک کہ بہن بھائیوں سے بھی الجھ بیٹھتے ہیں۔ کیا یہ سیاستدان اس قابل ہیں کہ ہم ان کے لیے اپنے رشتے داؤ پر لگا دیں؟ یہاں دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں لیکن ہماری نظر میں اپنی سیاسی پارٹی کا قائد فرشتہ ہوتا ہے۔
ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ہمیں موجودہ صورت حال کے بارے میں ضرور معلوم ہونا چاہیے۔ اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرنا چاہیے۔ ایک صحت مند معاشرے میں مثبت بحث کرنے اور سوالات اٹھانے سے بہت سی چیزیں واضح ہوتی ہیں۔ لیکن اگر سوالات دلیل سے عاری ہوں اور بحث برائے بحث میں صرف آواز اونچی کرکے جیتنے کی کوشش کی جائے تو ایسے رویئے ایک بیمار معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ بے ہودہ قسم کے میمز بنا کر ایک دوسرے کا مذاق اڑانا اور  واہیات قسم کے طنز کرنا باشعور لوگوں کا طریقہ نہیں ہے۔ یہاں ابھی آپ اپنی رائے دیں اور پھر دیکھیں کہ لوگ کیسے توپ اور گولے داغنا شروع کردیں گے اور بات دیکھتے ہی دیکھتے گالم گلوچ تک پہنچ جائے گی۔ ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے کی صورت میں دوسرے کی رائے کو احترام دینا تہذیب یافتہ اور باشعور قوموں کا شیوہ رہا ہے۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنا سیکھیں تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ سسٹم کو تبدیل کرنا بیشک آپ کے اختیار میں نہیں لیکن خود کو بدل لینا تو آپ کے اختیار میں ہے۔

 افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ کسی بھی بات کو عقل اور حقائق کی روشنی میں پرکھنے کے بجائے جذبات سے کام لیتے ہوئے آخری حد تک چلے جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ اس قوم کے جذبات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کا حصول کیا گیا ہے۔ جذبات کے ریلے میں بہہ کر دشمن کے ہاتھوں کھلونا بنتے ہیں۔ کیا آج دشمن ہمارے جذبات کو استعمال کرکے ہمیں تباہ نہیں کرسکتا؟ شاید نہیں، کیونکہ ہم اپنی تباہی کے لیے خود ہی کافی ہیں۔
مرزا غالب نے کیا خوب فرمایا ہے:
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ساغر و مینا مرے آگے۔
اس شعر کا لفظی ترجمہ و تشریح نہ کیجئیے، بلکہ اوپر لکھے گئے مضمون کے متن کو سمجھتے ہوئے اپنے ملک کی سالمیت اور بقا کے لئے اپنا اپنا مثبت کردار ادا کیجئیے، ملکی املاک اور یادگاروں کی بے حرمتی کے مرتکب ہرگز ہرگز نہ بنئیے،کیونکہ۔۔۔

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے

اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمہاری ہے، بحر و بر تمہارے ہیں
کہکشاں کے یہ جالے، رہ گزر تمہارے ہیں

اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارضِ پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو

یہ زمیں مقدس ہے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت، دولتِ یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو

میرِ کارواں ہم تھے، روحِ کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے، اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے​