رمضان سے ہم نے کیا سیکھا؟

19/04/2023

آج قرآن کلاس میں معلمہ نے کلاس کے اختتام پر ایک سوال اٹھایا “رمضان سے ہم نے کیا سیکھا”؟ جماعت میں تقریبا” سبھی نے ہی اپنی اپنی ذہانت کے مطابق پوائنٹس بتانے شروع کردئیے۔ میں نے بھی گھر آکر اپنے کام کاج کے دوران سوچنا شروع کردیا کہ آج اس موضوع پر کیا لکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ حسب عادت اپنے نوٹ پر ٹائپ کرنے لگی۔ جو ٹائپ کیا، وہی یہاں گروپ میں کاپی پیسٹ کر رہی ہوں۔۔۔ آپ بھی پڑھئیے اور اپنی رائے یا مشورہ بھی دیجئیے کہ ہم نے رمضان سے کیا سیکھا؟

اللہ رب العالمین کالاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان کے مہینے سے نوازا اور پھر اس ماہ مبارک میں روزہ رکھنے اور دیگر عبادتوں کو انجام دینے کی توفیق بخشی۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ رب العالمین نے جو روزے کا مقصد بیان کیا ہے تو کیا ہم نے روزے کے اس مقصد’’ لعلکم تتقون‘‘ کو پالیا ہے؟کیا ہم متقی بن پائے؟کیا روزے نے ہمارے اوپر اثر کیا؟روزے سے ہم نے کیا سیکھا ؟
یہ ایک ایساسوال ہے جس کا جواب لینا ہم سب پر لازم ہےکہ ہم نے ایک مہینہ بھوک و پیاس کی شدت میں گزارا،روزے رکھے،قیام اللیل کئے،قرآن کی تلاوت کی، صدقہ و خیرات کئے، زکاۃ نکالی،رب کے حضور عاجزی و انکساری کی، دعاؤں میں اس کے حضور گریہ زاری کی،طاق راتوں میں اپنے نرم وگداز بستروں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے عبادت و بندگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، غرض کہ رب کو راضی کرنے میں ہم سب نے جی توڑ محنت کی ہے۔
رب ذوالجلال والاکرام نے روزے کا مقصد تقوی و پرہیزگاری بتایا ہےتو کیا ہم پریکٹس لینے اور دینے کے بعد منشائے رب ذوالجلال والاکرام کو پالیا؟ کیا ہم نے اپنے آپ کو متقین کے زمرے میں داخل کروالیا؟کیا ہم سے رب راضی ہوا؟کیا ہمارا دل حلال پرمطمئن اور حرام سے بیزار ہوا؟ کیا ہم نے شریعت محمدی کو دل وجان سے لگالیا؟کیاہم نے عصیان وطغیان کاراستہ چھوڑ کر صراط مستقیم کو اپنالیا؟کیا ہم نے اپنے نفس کو اللہ اور اس کے رسول کاغلام بنالیا؟کیا ہم نمازی بن گئے؟کیا ہمارے دل میں اللہ کا خوف جاگا؟کیا ہمارے اندر خیر کا جذبہ بیدار ہوا؟ کیا ان سارے سوالوں کے جوابات ہمارے پاس اثبات میں ہیں؟اگرہیں تو اس کا مطلب ہے کہ روزے نے ہم پر اپنا اثر ڈالا ہے اورہم نے روزے کے مقصد کو کسی حدتک حاصل کرلیاہے پس اللہ کا شکر بجالائیں اوراگران سارے سوالوں کے جوابات نفی میں ہیں توجان لیجئے کہ ہم نے منزل پائے بغیر ہی ایک مہینے کے کٹھن ایام کی مسافت کو طے کردیا!
کہیں ہمارا شمار ان لوگوں میں سے تو نہیں(اللھم احفظنا) جن کے اوپرجبرئیل امین نے بددعا کرتے ہوئے کہا کہ’’ مَنْ أَدْرَكَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ فَأُدْخِلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ‘‘ جس شخص نے رمضان کا مہینہ پایااور اس کی مغفرت نہ ہوسکی جس کی وجہ سے وہ جہنم میں گیا تو اللہ ایسے انسان کو ہلاک وبرباد کرے،اس نورانی بددعا پرحبیب کائنات نے آمین کہا۔(صحیح الترغیب للألبانی:997)۔

روزہ دراصل اخلاقی تربیت گاہ ہے جہاں سے آدمی کامل ہوکراس طرح نکلتا ہے کہ خواہشات کی لگام اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے،خواہشات اس پرحکومت نہیں کرتیں بلکہ وہ خواہشات پرحکومت کرتاہے،جب وہ محض اللہ کے حکم سے مباح اور پاک چیزوں کوترک کردیتاہے تو ممنوعات اور محرمات سے بچنے کی کوشش کیوں نہ کرے گا جو شخص ٹھنڈے میٹھے پانی اور پاکیزہ و لذیذ غذائیں خدا کی فرمانبرداری میں چھوڑ سکتا ہے وہ حرام اور نجس چیزوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا کیسے گوارہ کرسکتاہے اوریہی’’ لعلکم تتقون‘‘ کامفہوم ہے۔ گویا کہ جس مسلمان نے روزے کی حالت میں حلال وجائز چیزوں کو چھوڑ دیا تھا مگر بعد رمضان حرام چیزوں کو نہ چھوڑ سکا تو وہ روزے کے مقصد سے محروم رہا۔
ذرا اپنا اپنا جائزہ لیجئے: کیاروزے رکھ کرہم نے اپنے نفس کو ضبط کرنے کا سبق لیا؟ کیا ہم نے اپنے آپ کو اپنے نفس کی غلامی سے آزادی دلائی؟ اگر نہیں تو پھر ہم نے ایک مہینہ ایک ایسا درخت لگایا جو بے ثمر ثابت ہوا کیونکہ روزہ انسان کے نفس وجسم کے تین اہم بنیادی مطالبے(1) غذاکا مطالبہ (2) صنفی مطالبہ (3) آرام کا مطالبہ پر حد درجہ بریک لگاتا ہے، یہ نفس کے تین ایسے پھندے ہیں جو ایک انسان کو اپنا غلام بنالیتے ہیں، غذا کا مطالبہ ایک انسان کو بندۂ شکم بنا دیتا ہے، صنفی جذبہ ایک انسان کو حیوانیت کے اسفل السافلین میں پہنچا دیتا ہے،اور جسم کے آرام کی طلبی سے ایک انسان کے اندر قوت ارادی و یقین محکم کی کوئی طاقت باقی نہیں رہتی۔

روزہ ان ہی تین خواہشوں کو اپنے ضابطۂ گرفت میں لیتا ہے، یہ مشق،یہ پریکٹس صرف ایک دن کی نہیں بلکہ پورے تسلسل کے ساتھ 29 یا30 دن کے ایام،720 گھنٹے کے لئے یہ پروگرام من جانب اللہ محض اس لئے دیا جاتا ہے کہ مومن نفس کے ان تین سب سے زیادہ زوردارحربوں کا مقابلہ کرکے وہ اپنے سارے ہی سفلی جذبات و خواہشات پرقابو پالے،اس کے نفس کا عنان اقتدار،لامتناہی خواہشات کی باگ دوڑ اس کے اپنے ہاتھ میں ہو، ہمیشہ یہ غالب رہے اور اس کا نفس مغلوب، جسے یہ مقصد حاصل نہ ہوا اس نے خواہ مخواہ اپنے آپ کو بھوک وپیاس اور رات میں جاگنے کی تکلیف دی،قرآن بھی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ’’قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها،وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها‘‘جس نے اپنے نفس کو پاک کیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوا۔(الشمس:9-10)
تو سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے نفس کو پاک کیا؟؟؟

نہنگ و اژدھا و شیرنر مارا تو کیا مارا

بڑے موذی کو مارا گر نفس امارہ کو مارا​

یادرکھیں!رمضان و عید کے اوقات، سحر و افطار کے اوقات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہماری زندگی ہمیشہ وقتوں کے حساب سے گزرنی چاہئے، جس طرح سے بے وقت روزہ کھولنے والے کا روزہ نہیں ہوسکتا اسی طرح سے اگر بے وقت ہوگیا وہ انسان تو کبھی بھی کسی بھی میدان میں چاہے دنیا ہو یا آخرت کامیاب نہیں ہوسکتا۔
کیا رمضان کے مہینے سے ہم نے وحدت کا سبق لیا؟کاش کہ امت مسلمہ نے رمضان کے مہینے سے وحدت کا سبق لیا ہوتا تو آج امت مسلمہ یوں نہ پارہ پارہ ہوتی کیونکہ پورے عالم میں جہاں کہیں بھی مسلمان رہتے اور بستے ہیں وہ فرض روزے صرف رمضان کے مہینے میں ہی چاند دیکھ کر رکھتے ہیں!امیر و غریب سب ایک ساتھ روزے کی شروعات رمضان سے اور اختتام شوال سے کرتے ہیں! صبح صادق سے شروعات اور اختتام غروب آفتاب پر کرتے ہیں!کاش کہ ہم مسلمانوں نے ان سب چیزوں پر غور و فکر کیا ہوتا تو آج اتنے اختلاف میں نہ پڑے ہوئے ہوتے۔ کیا ہی خوب کہا علامہ محمد اقبال نے:

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ،دین بھی،ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی،اللہ بھی،قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

بحیثیت پہلے ایک انسان اور پھر مسلمان ہونے کی ہم سب پر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ ہم سیرت طیبہ کا بغور مطالعہ کریں اور یہ سوچتے سمجھتے ہوئے کہ نبی آخر الزمان نے کیا تعلیمات دی ہیں ان کو اپناتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کی کوشش ہی نہیں بلکہ جہاد کرنا ہے۔ گھر بیٹھے کسی ضرورت مند کو پیسے دے کر مالی مدد کر دینا ہی کافی نہیں۔۔۔ بلکہ کچھ دیر کسی فاؤنٹین ہاؤس یا یتیم خانے کا رخ کر کے دیکھیں۔۔۔ ان کے دکھ درد سنیں۔۔۔ اسی طرح بے آسرا عورتوں کے غم بانٹ کر دیکھیں۔۔۔ غریبوں اور محتاجوں کی داد رسی کیجئے۔ یقین مانئیے ایک ائیر کنڈیشنڈ روم میں بیٹھ کر وہ خوشی نہ ملے گی جو کسی نادار کی بروقت مدد کر کے حاصل ہوتی ہے۔ ثواب بھی ملتا ہے اور اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔