زکوٰۃ کے لغوی معنی
26/03/2023
زکوٰۃ کے لغوی معنی پاکیزہ کرنا یا پروان چڑھانا اور نشوونما کرنے کے ہیں۔یہاں پاکیزگی سے مال کی پاکیزگی بھی ہے اور اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی صورت میں ملنے والی پاکیزگی ہے ۔جبکہ نشوونما سے مراد حق داروں پر مال خرچ کرکے اپنی دولت کو بڑھانا ہے ،جس سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے۔
اسلامی احکام کے مطابق معاشرے کے مال دار اور دولت مند افراد کے مال میں ناداروں اور محروموں کا حصہ رکھا گیا ہے۔اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:
وَ فِيْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاريات: 19)
’’اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجتمندوں) کا حق مقرر تھا‘‘۔
زکوٰۃ معاشرے کی غربت سے پسے ہوئے نادار، یتیموں اور دیگر مصارف کے لئے خوشحالی اور ترقی کی ضامن ہے اور جب پورا معاشرہ اس غربت و افلاس اور تنگدستی سے نجات حاصل کرے گا تووہ معاشرہ ایک ترقی یافتہ اور ایک مثالی معاشرہ متصور ہوگا۔
حضرت حسن بصری ؒ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
حَصِّنُوْا أَمْوَالَکُمْ بِالزَّکَاةِ، وَدَاوُوْا أَمْرَاضَکُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَاسْتَقْبِلُوْا أَمْوَاجَ الْبَـلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ. ( ابوداود فی السنن، کتاب: المراسيل)
’’اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ کے ذریعے بچاؤ اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور مصیبت کی لہروں کا سامنا دعا اور گریہ و زاری کے ذریعے کرو۔ ‘‘
اسلام کی معاشرتی زندگی دو بنیادوں پر قائم ہے ۔ایک روحانی، دوسری مادی ۔ اسلام کا روحانی نظام نماز سے قائم ہوتا ہے ، جو مسجد میں باجماعت ادا کی جائے اور مادی نظام زکوٰۃ و عشر سے بروئے کار آتا ہے جو اسلامی حکومت کے بیت المال میں جمع ہوکر مستحقین میں تقسیم ہوتی ہے۔ جیسے نماز کا آغاز اسلام کے ساتھ ساتھ ہوا ، اور مدینہ میں آکر تکمیل کوپہنچا، ایسے ہی زکوٰۃ یعنی مطلق صدقات و خیرات کی ترغیب ابتداء اسلام سے ہی ہوئی ۔لیکن اس کا پور ا نظام آہستہ آہستہ فتح مکہ کے بعد قائم ہوا۔ رمضان 8ھ میں فتح مکہ نے جب تمام عرب کو ایک رشتہ میں منسلک کر دیا تو اس وقت سورۂ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی، خذ من اموالھم صدقۃ تطھرہم و تزکیھم ۔’’اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کرو اور اس کے ذریعے ان کو پاک و صا ف کرو۔‘‘(توبہ، 13)
زکوٰۃ کے معاشی و معاشرتی فوائد:
کسی بھی مسلم معاشرے میں اگر نظام زکوٰۃ درست انداز میں کام کر رہا ہو تو یہ معاشرہ نہ صرف معاشی طور پر مستحکم و مضبوط ہوگا بلکہ روحانی اور اخلاقی طور پر بھی یہ معاشرہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔
زکوٰۃ کا نظام ہر لحاظ سے معاشرتی استحکام اور خوش حالی کا ضامن ہے جبکہ سودی معیشت پر مبنی موجودہ سرمایہ داری نظام معاشرتی عدم مساوات اور استحصال و استیصال کے ذریعے معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اگر معیشت کو اسلام کے نظام زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے کی کماحقہ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور نظام زکوٰۃ کے عمل کو اوپر سے نچلی سطح تک منظم، مربوط اور مستحکم کیا جائے تو اسلام کے اس روشن اصول کے ذریعے معاشرے سے تنگدستی اور غربت کے اندھیروں کویقیناً ختم کیا جاسکتا ہے۔ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ ایک سے انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے تو دوسرے سے اس کی مادی ضرورتوں کی کفالت کی ضمانت میسر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ افراد کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔