(ڈاکٹر بشری تسنیم) جذباتی ذہانت
10/03/2023
(Emotion Quotient )EQ
درحقیقت ایک اصلاح ہے جو جذباتی ذہانت یا emotional intelligence کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ ایک مکمل علم ہے اور یہ علم دراصل اپنے اور دوسروں کے جذبات کو بھانپتے اور انہیں کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
یہ دوسروں کے ساتھ معاشرتی و سماجی رویے، رشتوں کو جوڑے رکھنے اور گھر یا معاشرے میں امن برقرار رکھنے، وقت کی پابندی، ذمہ داری، وفاداری، ایمانداری، حدود کا احترام، عاجزی کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔ گویا کہ اگر ” آئی کیو” دماغی یا عقلی ذہانت ہے تو “ای کیو” قلبی یا جذباتی ذہانت کا نام ہے۔
ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اپنے جذبات کا اظہار اور انہیں قابو کرنے کی صلاحیت، پرسکون زندگی کے لئے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ اسی طرح دوسروں کے جذبات کو سمجھنا، حقائق اخذ کرنا اور ان کے جذبات پر ردعمل دینا بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات، اس صلاحیت کو جذباتی صلاحیت کا نام دیتے ہیں۔ کچھ ماہرین اسے عقل سے بھی زیادہ اہم کہتے ہیں۔
بہت سے لوگ EQ اور IQ دونوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ دونوں میں سے کسی ایک سے زیادہ نوازے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ اپنے شعبے میں ماہر اور ذہین شخص جذباتی معاملات میں بھی ہمیشہ ذہین واقع ہو۔ ایسے بہت سے افراد موجود ہیں جو بہت اچھا IQ رکھنے کے باوجود EQ میں مار کھا جاتے ہیں۔
زندگی میں کامیابی تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے جذبات کے اظہار کے مثبت اور تعمیری طریقے سیکھ لیں۔ یہی وجہ ہے کہ جذباتی ذہانت کا نظریہ دنیا بھر کے نفسیات دانوں میں مقبول ہو رہا ہے۔ انسانی تعلقات، تعمیری محنت اور اعصابی دباؤ سے تحفظ کے لئے جذباتی ذہانت کے استعمال کا تصور زور پکڑتا جا رہا ہے۔
اگر آپ اپنی زندگی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی کی کامیابی چاہتے ہیں تو جذباتی ذہانت کی مشق کیجئے۔ اس سے آپ عامل بنیں گے معمول نہیں۔ جذباتی ذہانت پر قابو نہ ہو تو انسان دوسروں کے ہاتھوں کھلونا بن سکتا ہے اور دوسرے اسے جب چاہیں غصہ دلا کر، خوش کر کے، مایوسی پیدا کر کے، ہمدردی کے جذبات ابھار کر، ڈرا کر یا کسی اور جذباتی صلاحیت کے ذریعے اس پر اپنی مرضی مسلط کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی کے معاملات میں اپنے جذبات پر قابو رکھنا اور انہیں درست طریقے سے استعمال کرنا جانتا ہے تو یقینا” اس کا “آئی کیو” اچھا ہو گا۔
اگر آپ اپنے منفی جذبات کو مثبت قوت ارادی سے ہم آہنگ کر لیں تو زندگی پر آپ کے اختیارات لامحدود ہوتے چلے جائیں گے۔اپنے جذبات کو پہچاننے اور انہیں توازن میں رکھنے کی صلاحیت کے پیمانہ کو ہی نفسیات دان “ای کیو” کہتے ہیں اور یہ اسلامی تعلیمات میں “محاسبہ نفس” کی عادت میں مددگار ہوتا ہے۔جذباتی ذہانت کی موجودگی ہمیں اس قابل کر دیتی ہے کہ ہم دوسروں کے احساسات اور ان سے پیدا ہونے والے جذبات اور ان جذبات کے ممکنہ ردعمل کا اندازہ لگا سکیں۔ چنانچہ جذباتی ذہانت ہمیں تنازعات میں، جذباتی بحرانات اور صدمات میں تعلقات کو بحال رکھنے اور زندگی کے توازن کو برقرار رکھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔
عورت مرد کی نسبت زیادہ جذباتی اور حساس ہوتی ہے۔ خواتین کے چہرے کی جلد میں فی مربع سینٹی میٹر محسوس کرنے والے 34 اعصاب ہوتے ہیں، جبکہ مردوں میں یہ تعداد صرف 17 ہے۔ خواتین گرمی سردی کو جلد محسوس کرتی ہیں، جذبات کی رو میں جلدی بہہ جاتی ہیں۔ دردناک واقعات یا تکالیف عورت کو زیادہ متاثر کرتے ہیں، اسی لئے عورت کے مزاج میں نرمی، برداشت، دھیماپن، لطف و کرم مردوں کی نسبت زیادہ رکھا گیا ہے۔ اسی لئے اس کو اللہ الخالق نے تخلیق اور پرورش کی کٹھن ذمہ داری سونپی ہے۔
نفسیاتی اعتبار سے بھی نازک احساسات و جذبات عورت میں بہتر ہوتے ہیں۔ عورتیں مردوں کی نسبت رشتوں کے باہم تعلقات میں ترجیحات کو بہتر سنبھال سکتی ہیں۔پڑوسیوں، دوستوں، رشتے داروں سے مسلسل رابطے میں رہنے کا فن عورتوں کو ودیعت کیا گیا ہے۔ اسی بنا پہ لڑکی والدین کا گھر چھوڑنے کے بعد نئے ماحول اور نئے رشتوں کو قبول کرتی اور ان کو نبھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
جذباتی ذہانت، کسی نہ کسی سطح پر تمام افراد میں ہوتی ہے لیکن سب لوگ اس سے استفادہ نہیں کر پاتے۔ EQ کا اظہار اس رویے سے بھی ہوتا ہے کہ آپ روزمرہ زندگی میں پیدا ہونے والے جذباتی تناؤ کو کس طرح برداشت کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو کم EQ رکھتے ہوں، وہ عاجزی دکھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں، چنانچہ اپنی ذات سے باہر نہیں دیکھ سکتے۔ اپنی اس خامی کی وجہ سے وہ دوسروں پر نہ تو اپنا اعتبار قائم کر سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے لئے ہمدردی کا احساس رکھتے ہیں۔ گویا EQ کا درست استعمال یہ ہے کہ مغرور اور بدمزاج ہوئے بغیر، جذباتی انداز میں ۔عاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی جائے، ” اگر آپ کے جذبات آپ کے قابو میں نہیں، اگر آپ کو خود آگہی نہیں، آپ پریشان کن جذبات کو منظم نہیں کرسکتے، آپ کے اندر دوسروں کے لئے شفقت نہیں، آپ روزمرہ تعلقات میں لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے ذہین، ہوشیار یا دولت مند ہیں کیونکہ آپ اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ زیادہ دور تک یا زیادہ دیر تک نہیں چل سکیں گے”۔
ذہانت کے بارے میں سوچتے ہوئے ہم میں سے بہت سے لوگ آئن اسٹائن کو “سوچنے والی مشین” کے طور پر دیکھتے ہیں اور اکثر مفکرین ذہن کے ہارڈویئر(کھوپڑی) اور فہم و ادراک کے سوفٹ وئیر (دماغ) کو ذہانت کا ممبع سمجھتے آئے ہیں۔ جب کہ دل کی طاقت کو صرف اور صرف شاعروں کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔
قرآن و سنت میں دل کو ہی فلاح کی آماجگاہ بتایا گیا ہے۔ “تقوی تو دل میں ہوتا ہے”، میں جذباتی ذہانت کا سارا فلسفہ موجود ہے۔ قرآنی زبان میں قلب سلیم ہی پہ اخروی کامیابی کا دارومدار ہے۔ دل کو تقوی سے آراستہ کرنے اور قلب سلیم حاصل کرنے کے لئے خود آگاہی ہونا ضروری ہے۔ خود آگاہی کے لئے محاسبہ نفس لازمی امر ہے۔ محاسبہ نفس کے ذریعے خود آگاہی انسان کی سب سے بڑی صلاحیت ہے کیونکہ صرف یہی وہ خوبی ہے جو ہمیں خود پر کنٹرول کرنے کا راستہ دکھاتی ہے۔ اس کا مطلب احساسات اور محسوسات کو دبانا نہیں بلکہ انہیں جاننا اور ان کے ساتھ قوت ارادی کا صحیح استعمال ہے۔ سب کے لئے قابل قبول انسان وہ ہے جو نہ خوشی میں ایسا پھولے کہ جامے سے باہر ہو جائے اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو۔ یقینا” ہر انسان غصہ کر سکتا ہے مگر کسی برے شخص پر تپش کی مناسب ڈگری کے ساتھ، بروقت، کسی جائز مقصد اور قابل قبول طریقے سے غصہ کرنا ہی کمال ذہانت ہے۔ اگرچہ یہ بہت مشکل امر ہے مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ” قلب سلیم ہی جذباتی ذہانت کا حامل ہوتا ہے اور اس میں ہی عقل و فہم کی ساری ذہانتیں پوشیدہ ہیں۔
قلب سلیم سے مراد وہ دل ہے جو شرک، شک و شبہ، شر کی محبت اور بدعت و معاصی پر اصرار سے پاک اور محفوظ ہو۔ اخلاص، علم، یقین، خیر کی محبت اور ان کے ذریعے قلب کے مزین ہونے جیسی صفات سے متصف ہو، نیز اس کا ارادہ اور محبت اللہ تعالی کی محبت کے تابع اور اس کی خواہشات اللہ تعالی کی شریعت کے تابع ہوں۔ گویا قلب سلیم کے بغیر ہماری نجات ممکن نہیں ہے۔ اور قلب سلیم ایسا نفیس اور خوبصورت دل ہے جو ان تمام صفات سے متصف ہے جو اللہ تعالی کو ایک مومن سے مطلوب ہیں۔ اور جس مومن کو قلب سلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو گیا اللہ تعالی اس کو سب کے لئے نافع اور سب کا محبوب بنا دے گا اور یہ مرتبہ حاصل ہو جانا ہی بہترین جذباتی ذہانت ہے۔