سورہ الکھف آیت نمبر١٠

3/03/2023

إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا
ترجمعہ: جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی تو انہوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے کام میں آسانی پیدا فرما۔“ ( سورہ الکھف آیت نمبر١٠)

اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا واقعہ نہایت مجمل طور پر ذکر کیا اور پھر اس کی تفصیل بیان کی، چنانچہ فرمایا : ﴿إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ﴾ ”جب جا بیٹھے وہ نوجوان غار میں“ اور یہ نوجوان اس غار میں پناہ گزین ہو کر اپنی قوم کی تعذیب اور فتنے سے بچنا چاہتے تھے۔ ﴿فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ﴾ ” پس انہوں نے کہا، اے ہمارے رب ! ہمیں نیکی کی توفیق دے۔‘‘ ﴿ وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا﴾ ”اور ہمارے کام میں درستی پیدا کر۔“ یعنی رشدو ہدایت تک پہنچانے والا ہر راستہ ہمارے لیے آسان فرما دے اور ہمارے دینی اور دنیاوی امور کی اصلاح کر۔ پس وہ کوشش کے ساتھ اپنی قوم کی تعذیب اور فتنہ سے فرار ہو کر ایسے محل و مقام کی طرف بھاگے جہاں ان کے لیے چھپنا ممکن تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اور اپنے نفس اور مخلوق پر بھروسہ کیے بغیر، اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے آسانی کا سوال کرتے رہے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی اور ان کے لیے ایک ایسا امر مقرر کردیا جو ان کے گمان میں بھی نہ تھا۔

سورہ کہف مکی سورت ہے اور اس میں 110 آیت اور 12 رکوع ہیں۔کہف غارکو کہتے ہیں۔ اس سورت میں غار والوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے اس لئے اسے سورہ کھف کہا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جو شخص جمعہ کے دن سورہ کھف پڑھے گا اس کے لئے دو جمعوں کے درمیان کو نور سے منور کر دیا جائے گا۔اصحاب کھف، یہ وہ چند صاحب ایمان نوجوان تھے جنہیں دقیانوس نامی بادشاہ بت پرست پر مجبور کرتا تھا۔ وہ ہر ایسے شخص کو قتل کر دیا کرتا تھا جو اس کی شرکیہ دعوت کو قبول نہیں کرتا تھا۔
ان نوجوانوں کو ایک طرف مال و دولت کے انبار اونچے عہدوں پر تقرراور معیار زندگی کی بلندی جیسی ترغیبات دی گئیں۔
اور دوسری طرف ڈرایا دھمکایا گیا اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئیں۔
ان نوجوانوں نے ایمان کی حفاظت کو ہر چیز پر مقدم جانا اور اسے بچانے کی خاطر نکل کھڑے ہوئے۔ چلتے چلتے شہر سے بہت دور ایک پہاڑ کے غار تک پہنچ گئے۔
انہوں نےاس غارمیں پناہ لینے کا ارادہ کیا جب وہ غار میں داخل ہوگئے تو اللہ نے انہیں گہری نیند سلا دیا جہاں وہ 309 سال تک سوتے رہے۔جب نیند سے بیدار ہوئے تو کھانے کی فکر ہوئی۔ ان میں سے ایک کھانا خریدنے کے لئے شہر آیا وہاں اسے پہچان لیا گیا۔ تین صدیوں میں حالات بدل چکے تھے اہل شرک کی حکومت کب کی ختم ہو چکی تھی۔ اور اب موحد برسرِاقتدار تھے۔ ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑنے والے یہ نوجوان ان کی نظر میں قومی ہیروز کی حیثیت اختیار کر گئے۔

اس قصہ سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مومن کو ایمان کے سلسلہ میں بڑا حساس ہونا چاہیے۔ اوراگر خدانخواستہ مادیت اور ایمان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کا مرحلہ آئے تو اسے بہرطورایمان کی حفاظت ہی کو ہر مادی چیز پر ترجیح دینی چاہیے۔ اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھتے ہوئے اسی سے اچھے کی امید اور عاجزی سے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ پاک ہم مسلمانوں کو ہمیشہ ہدایت پر رکھیں اور صراط المستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔