زلزلے کیوں آتے ہیں اور کیا پیغام دیتے ہیں
09/02/2023
یہ دھرتی جس پر ہم رہتے، بستے اور زندگی گذارتے ہیں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالی نے یہ زمین ہمارے لئے مختص کر دی اور اس سے ہر طرح کے غلے اور اناج اگائے، اس کی تہہ سے مختلف خزانے نکالے تاکہ وہ ہمارے لیے سامان زیست بن سکیں۔ اللہ تعالی نےفرمایا: سورہ الأعراف آیت نمبر 10 ولقد مکناکم فی الارض وجعلنا لکم فیہا معائش قلیلا ما تشکرون ۔ ہم نےتمہیں زمین میں اختیارات کےساتھ بسایا، اور تمہارے لیےزندگی کے سامان رکھے مگر تم لوگ کم ہی شکر ادا کرتےہو۔
جی ہاں! اگر اللہ تعالٰی نے زمین کو ناہموار بنایا ہوتا، یا زمین سے غلے پیدا نہ ہوتے تو ہمارے لیے زندگی گذارنا کتنا مشکل ہو سکتا تھا اس کا اندازہ ہم بخوبی لگا سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اللہ پاک نے زمین میں پہاڑوں کو جما دیا تاکہ ہم بآسانی اس پر اپنے رہنے کے لئے عمارت بنا سکیں اور زندگی گذار سکیں۔
لیکن اس کے باوجود انسان جب اللہ کے قانون سے منہ موڑتا ہے تو اللہ تعالی اس زمین کو حکم دیتا ہے کہ اے زمین حرکت کر، بھونچال مچادے اور زلزلے پیدا کر، یہ اصل میں الٹی میٹم ہوتا ہے، تنبیہ ہوتی ہے…تاکہ انسان سنبھل جائے، سدھر جائے اور اپنے احوال کی سدھار کرلے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ان دنوں زلزلوں کی کثرت ہوچکی ہے۔ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں وقفہ وقفہ سے زلزلے اور طوفان آتے ہی رہتے ہیں ۔
آج کی سائنس کہتی ہے کہ زمين کی بالائی پَرت اندرونی طور پر مختلف پليٹوں ميں منقسم ہے۔ جب زمين کے اندرونی کُرے ميں موجود پگھلے ہوئے مادّے ميگما Magma ميں کرنٹ پيدا ہوتا ہے تو يہ پليٹيں بھی اس کے جھٹکے سے متحرک ہوجاتی ہيں جس سے زلزلہ آتا ہے۔ اسی لیے آج لوگ زلزلے کو نیچرل معاملہ یا طبعی چیز سمجھ رہے ہیں، سائنس کی تحقیق اپنی جگہ پر جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال یہ ہے ان پلیٹوں کو الگ الگ کس نے کیا؟ ان میں حرکت کس نے پیدا کی؟ وہ کون ہے؟ کیا یہ اللہ کی ذات نہیں؟
بات واضح ہے کہ زلزلے ہمارے گناہوں کے پاداش میں، منکرات کے پھیلنے کے سبب اور اللہ کی تدبیر سے غفلت کے نتیجہ میں آتے ہیں۔ جی ہاں! یہ ساری آفتیں فسق وفجور کے عام ہونے کی وجہ سے آرہی ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا ظهرَ الرِّبا والزِّنا في قريةٍ فقد أحلُّوا بأنفسِهم عذابَ اللهِ (صحيح البخاري 2731 ) “جب زنا اور ربا کسی بستی میں ظاہر و عام ہو جائیں تو اللہ تعالی اس کی تباہی کا حکم دے دیتا ھے”۔
اور زلزلوں کی کثرت دراصل قرب قیامت کی نشانی ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تقومُ الساعةُ حتى يُقْبَضَ العِلْمُ ، وتَكْثُرُ الزلازلُ ، ويَتقاربُ الزمانُ ، وتظهرُ الفِتَنُ ، ويكثُرُ الهَرَجُ ، وهو القَتْلُ القَتْلُ ، حتى يكثُرَ فيكم المالُ فيَفيضُ . صحیح البخاری 1036 قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلوں کی کثرت ہوگی، زمانے قریب ہوجائیں گے، فتنوں کا ظہور ہوگا، قتل وغارت گری عام ہوگی اور مال کی بہتات اور فراوانی ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ ان زلزلوں میں ہمارے لیے کیا سبق ہے؟ کیا پیغام ہے؟ کیا درس ہے؟
اللہ کی عظمت اور قوت کا اظہار ہے،کہ یہ پوری کائنات اللہ کے قبضہ میں ہے، جس میں زمین، آسمان، سورج، چاند، جنات، انسان، حیوانات، نباتات، سمندر، پہاڑ اور اشجار غرض کہ ہر اک شے یہ سب کی سب اسی کے قبضہ میں ہے وہ جب چاہے زمین کو حرکت دے سکتا ہے، کوئی اس کے فیصلے کو روکنے والا نہیں۔
ہم جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں آنکھیں کھولیں، شرک کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اس سے توبہ کریں۔
اللہ تعالی نے فرمایا: سورہ الأعراف ۹۷۔۹۹ أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ ﴿٩٧﴾ أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ﴿٩٨﴾ أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّـهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ
پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آ جائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں؟ (97) یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا عذاب کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ (98) کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔
نعمتیں کبھی کبھی ڈھیل کے طور پر بھی ہوتی ہیں، کتنے لوگ جب اللہ کی نعمتوں میں پل رہے ہوتے ہیں تو انہیں یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ نعمتیں کس نے دی ہیں، اللہ کے بندوں کو بھی حقارت بھری نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالی مہلت دیتا ہے، ڈھیل دیتا ہے جب وہ حد سے آگے گذرجاتے ہیں تو اللہ تعالی اپنی رسی کھینچ لیتا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ترکی اور شام کے حالیہ اس ہولناک زلزلے سے قیامت کے دن کے زلزلے کو یاد کریں۔ جو دن بچوں کو بوڑھا کردے گا، جس دن دودھ پلاتی مائیں اپنے بچے کو بھول جائیں گی، جس دن حاملہ عورتوں کا حمل گر جائے گا، لوگ مدہوشی کی حالت میں ہوں گے۔ حالانکہ وہ اصل میں مدہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی سخت ہوگا۔ زلزلوں کوآپ نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہوگا کہ لوگوں پر کیسی وحشت اور ہولناکی چھائی ہوتی ہے۔ زلزلہ کیا قیامت کا ہولناک اور روح فرسا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ گویا ایک انسان کو چاہیے کہ ایسی چھوٹی تباہی کو دیکھ کر قیامت کے دن کی تیاری شروع کردے۔ اللہ سے ڈرے۔ اس کی پکڑ سے خوف کھائے، اپنے احوال کی سدھار کرلے، سچی توبہ کرے، اللہ سے گڑگڑائے اور لو لگائے، معاشرے اور سماج میں جو برائیاں پنپ رہی ہیں ان پر روک لگائے، معاشرے میں نیکی کا چلن ہو اور برائی کی حوصلہ شکنی ہو، اور اگر ہم نے دوسروں کے حقوق مارے ہیں، دوسروں پر زیادتی کی ہے، دوسروں کو ستایا ہے تو ان سے معافی مانگیں۔ اور بکثرت صدقات و خیرات کریں یعنی معاشرے کے غرباء ومساکین کی اعانت اور مدد کریں۔ روایت میں آتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کے عہد مبارک میں جب زلزلہ آیا تو آپ نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ زیادہ سے زیادہ صدقہ اور خیرات کریں۔
آخر میں ترکی اور شام کے متاثرین کے لئے اللہ کے حضور دعاگو ہوں کہ اللہ پاک وفات پانے والوں کی بخشش و مغفرت فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ زخمیوں کو جلد صحت یاب کرے، بچھڑے ہوؤں کو اپنے فضل سے جلد ملا دے۔ اس صبر آزما آزمائش کی گھڑی کو آسانی سے ٹال دے۔
سوشل میڈیا پر آسٹرولوجسٹ کی پیشن گوئیوں کی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اب پاکستان اور انڈیا میں بھی زلزلے آئیں گے۔ تو پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ کے إذن کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ جب تک کہ وہ نہ چاھے۔ اور دوسری بات یہ کہ ہم مسلمان ہیں، ہم دنیادار تو ہیں ہی اب دین دار بھی بن جائیں اور سنبھل جائیں اور سمجھ جائیں کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے والی نہیں۔۔۔ اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتے ہیں: اور جو کچھ تم کو دنیا میں دیا گیا ھے وہ تو صرف دنیا کی چند روزہ زندگی گزارنے کا سامان اور یہاں کی فنا ہونے والی رونق ھے اور جو کچھ اللہ پاک کے پاس ھے وہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ھے۔ کیا تم اتنی بات کو نہیں سمجھتے۔ سورہ القصص آیت #60۔