کامیاب عورت ہی کامیاب معاشرہ کی ضمانت ھے

06/02/2023

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کامیابی کیا ھے یا کسے کہتے ہیں؟
میری ناقص سوچ کے مطابق ہر وہ انسان کامیاب ھے جس کے بچے کہیں کہ انہوں نے اپنے والدین کی مانند بننا ھے۔ اور جس بچے کے والدین یہ کہ سکیں کہ ہمیں اپنے بچے پر فخر ھے۔ باقی سب کچھ مایا ھے۔ سمجھ نہ آئے تو اپنا سرمایہ کھو دیں، آپ کو اس معاشرے میں اپنی اصلی حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا۔
معاشرے کی بلندی اور زوال میں سب سے نمایاں کردار ایک عورت کا ہوتا ہے۔ کسی مفکر نے کیا ہی بہترین عکاسی کی ہے کہ “ایک پڑھے لکھے معاشرے کی بنیاد تعلیم یافتہ اور بااخلاق عورت سے ہوتی ہے۔”
(میں چند پوائنٹس سے اس کی وضاحت کرتی ہوں تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے۔)

صحابیاتؓ جیسی کارکردگی:
صحابیاتؓ اس کی اعلیٰ مثال ہیں۔ آپؓ کی جرأت، بہادری اور ایمان بے مثال ہے۔ آج معاشرے کی تبدیلی تبھی ممکن ہے جب ہم ان صحابیاتؓ کے نقش قدم پر چلیں ان جیسی خصوصیات اپنے اندر پیدا کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ حضرت سمیہؓ کی جرأت، حضرت صفیہؓ کی بہادری، حضرت عمارہؓ جیسا ایمانی جذبہ، حضرت خولہؓ جیسا حوصلہ، حضرت خدیجہؓ جیسی حکمت و تدبر، حضرت فاطمہؓ جیسا صبر، حضرت عائشہؓ جیسا ذہن اور تمام صحابیاتؓ جیسا پختہ ایمان اور اخلاق۔ اگر آج ہم خواتین میں پیدا ہوجائے تو معاشرے کی ہر پہلو سے بلندی یقینی ہو سکتی ھے۔ 

اپنی سوچ اور صلاحیتوں کو اُبھاریں:
عورت معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ معاشرے میں خواتین کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن اپنے حصے کی کارکردگی انجام دیتے ہوئے معاشرے کو جوڑے رکھنا اور اس میں پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرنا یا ان مسائل کو حل کرتے ہوئے کامیاب ہونا یہ بہت ضروری اور بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر معاشرتی نظام میں اپنے آپ کو ہرفن مولا کے کردار میں پیش کریں تو اپنے کام، اپنی سوچ اور غور و فکر کی صلاحیتوں کے جوہرات سے معاشرے کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ دولت، شہرت اور وقتی چمک دمک کے بنا بھی خواتین اپنی بہتر کارکردگی کے ذریعے معاشرے کو کامیاب بنا سکتی ہیں۔

معاشرے کی اصلاح میں خاتون کا اہم کردار:
انسانی معاشرہ مرد و عورت سے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کی تعمیر و ترقی اور اس کی اصلاح و سدھار میں برابر کے حصے دار ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ اگر ایک عورت مضبوط کردار کی مالک، اپنے ارادوں کی دھنی اور لگن کی پکی ہے تو اپنے گھر کیا، سماج و معاشرے کو بھی کامیاب بنانے میں نمایاں کردار نبھا سکتی ہے۔ مولانا مختار احمد ندویؒ فرمایا کرتے تھے ’’ایک مرد کی تعلیم، ایک فرد کی تعلیم ہے جبکہ ایک عورت کی تعلیم، پورے خاندان اور سماج کی تعلیم ہے۔‘‘ اور حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ عورت وہ مضبوط چٹان ہے جو اگر ٹھان لے تو کچھ بھی کر سکتی ہے اور یہ بھی سچائی ہے کہ معاشرے کی اصلاح میں خاتون خانہ کا رول نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ عورت تعلیمی میدان میں آگے بڑھے اور اسلامی حدود و قیود کی پابند رہے۔ یقیناً وہ اپنے معاشرے کیلئے مفید ثابت ہوگی۔
عورت میں یہ فطری صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ہر بگاڑ کو درست کرسکتی ہے:
معاشرے کی اصلاح و کامیابی کے ضمن میں خواتین کی فعال کار کردگی بیحد اہم ہے۔ اگر خواتین کی دُنیا صرف اپنے گھر اپنے خاندان، اپنے بچوں اور ذاتی مفادات تک ہی محدود نہ ہو تو خاتونِ خانہ یا ملازمت پیشہ دونوں قسم کی خواتین اپنی خانگی ذمہ داریوں کو پُورا کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بہتری اور اصلاح کے لئے بھی حسب استطاعت کچھ نہ کچھ شراکت کر سکتی ہیں۔ اس فہرست میں سب سے اوّل اپنے بچوں کی بہترین پرورش وتربیت کرنا اور اہل خانہ کیلئے گھر میں صحتمند و مہذب ماحول فراہم کرنا ہے۔ معاشرے کیلئے کار آمد اور نافع افراد بہترین گھروں اورخواتین کی اعلیٰ بہترین تربیت و انتظام کا عکس ہوتے ہیں۔ عورت میں قُدرت نے یہ فطری صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ہر بگاڑ کو دُرست بھی کر سکتی ہے اور کامیابی کی منزلوں تک معاشرے کی مکمّل اور بہترین رہنمائی بھی کر سکتی ہے۔ معاشرے میں پھیلی برائیوں کی بیخ کنی اور سد باب کے لئے خواتین کو کہیں دُور جانے کی ضرورت نہیں، اپنےخاندان گھروں اور بستیوں سے بھی اصلاح معاشرے کے اس کارِ خیر کی ابتدا ممکن ہے۔ ہمارے تعاون سے اگر سماج کی ایک بُرائی بھی دور ہو سکے تو یہ ایک خوش آئند قدم ہوگا۔

خواتین کا معاشرے کو کامیاب بنانے میں کلیدی رول ہوتا ہے:
جس طرح گھر کو جنت بنانے میں خواتین اہم کردار ادا کرتی ہیں اسی طرح معاشرے کی کامیابی کا انحصار بھی کچھ حد تک خواتین پر ہوتا ہے۔ ایک معاشرہ تبھی کامیاب ہوگا جب معاشرے میں رہنے والے افراد خصوصاً نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں گے۔ معاشرے میں رہنے والے افراد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس خود بخود نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ ان کی تربیت پر منحصر کرتا ہے۔ گھر کا ماحول اور طرز زندگی افراد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہیں۔
 بچوں کی جیسی تربیت کی جائے وہ بڑے ہو کر ویسے ہی بنتے ہیں۔ ان کا برتاؤ اچھی بری تربیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بچوں کی پرورش ایک ماں ہی بہتر طریقے سے کر سکتی ہیں کیونکہ وہ والد کی بہ نسبت زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزارتی ہیں اور عموماً بچے ماں ہی سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ماں کے ذریعے بچوں کی بہترین تربیت ہی ہے جو بچوں کو معاشرے میں غلط کاموں سے روکتی ہے، اپنے معاشرے اور ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ لہٰذا معاشرے کو کامیاب بنانے میں خواتین کی کارکردگی نہایت اہم ہے۔

خواتین کا تہذیب یافتہ ہونا اشد ضروری ھے: 
افراد سے مل کر ہی معاشرہ جنم لیتا ہے اور معاشرے میں مرد اور خواتین دونوں ہی اپنے اپنے حساب سے تعاون کرتے ہیں۔ ایک کامیاب معاشرہ وہی ہوسکتا ہے جس میں امن، چین، سکون ہو، انصاف ہو، باہمی رواداری ہو، مطلب پرستی سے پاک ہو، کسی بھی قسم کی زور زبردستی نہ ہو اور ہر معاملے میں مثبت رویہ ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ شروع ہی سے اچھی تعلیم و تربیت کا نظام قائم کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کیلئے پہلا مدرسہ ہوتا ہے۔ اسلئے معاشرے کی کامیابی میں تعلیم یافتہ خواتین کا زبردست رول ہے۔ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ خواتین ہی اچھے برے کی تمیز سکھا سکتی ہیں، قدم قدم پر اصلاح کر سکتی ہیں، حوصلہ افزاء کلمات سے ان کی صلاحیت میں نکھار لا سکتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو بہت عمدہ طریقے سے پروان چڑھائیں گی اور بہترین معاشرہ وجود میں آئے گا۔ معاشرے کو کامیاب بنانے کے لئے خواتین کا رول بہت ہی اہم ہے۔ اس کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اچھی صحبت میں پرورش پائی ہوئی ناخواندہ خواتین بھی اپنے بچوں کو بہت عمدہ طریقے سے لے کر چلتی ہیں اور بہترین انسان بناتی ہیں۔ اس لئے خواتین کا تہذیب یافتہ ہونا بھی اشد ضروری ہے۔

ایک عورت ایک پایۂ دار معاشرے کو تشکیل دے سکتی ہے:
یہ کہاوت عام ہے کہ مرد اگر دیندار ہو تو دین گھر تک پہنچ جاتا ہے اور اگر عورت دیندار ہو تو دین نسلوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک عورت ایک پایۂ دار معاشرے کو تشکیل دے سکتی ہے اور اس کے لئے سب سے اہم اور ضروری حصہ، اولاد کی صحیح تربیت ہے۔ کیونکہ ایک معاشرہ انسانوں ہی سے بنتا ہے اور جب اس میں رہنے والے اچھی تربیت کے زیر اثر ہوں گے تو مضبوط کردار کے بھی حامل ہوں گے تو اس طریقے سے عورت معاشرے کو کامیاب بنانے میں تعاون کر سکتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ اپنے مثبت روئیے سے زندگی کو سنوارنے اور ساتھ لے کر چلنے والی بنے نہ کہ گھر کے ماحول کو اپنے تلخ روئیے سے ایک ذہنی بیمار ماحول دے کر اپنے ہی ہاتھوں تباہ و برباد کرے۔ ایک باشعور، منظم اور کامیاب عورت وہی ھے جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب یافتہ بھی ہو۔
بقول کسے ” تعلیم کی کمی کو تربیت اچھی طرح ڈھانپ لیتی ھے، لیکن تربیت کی کمی کو تعلیم کبھی پورا نہیں کر سکتی۔ کسی کی پہچان علم سے نہیں بلکہ ادب سے ہوتی ھے۔ کیونکہ علم تو ابلیس کے پاس بھی تھا، لیکن وہ ادب سے محروم تھا۔