غزوات کی کامیابیوں کا مین آف دی میچ
04/02/2023
شیر خدا امیر المومنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کرم الله وجہہ
باب العلم سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ کے فضائل و خوبیوں اور کردار وکارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں، جس سے قیامت تک آنے والے لوگ ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔
آپ کا نام علی، لقب حیدر و مرتضیٰ، کنیت ابوالحسن اور ابو تراب ہے، آپ کے والد ابو طالب حضور صلی الله علیہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبدالله کے سگے بھائی تھے، آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔ ماں باپ دونوں طرف سے آپ ہاشمی ہیں۔ سیدنا حضرت علی کرم الله وجہہ، میں ہاشمی سرداروں کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔ عبادت و ریاضت کے آثار بھی چہرے پر موجود تھے، چہرے پر مسکراہٹ اور پیشانی پر سجدے کے نشان … معمولی لباس زیب بدن فرماتے، آپ کا عبا اور عمامہ بھی سادہ تھے، گفتگو علم وحکمت اور دانائی سے بھرپور ہوتی … بچپن سے نہ صرف حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رہے، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کی آغوش محبت میں پرورش پائی، آپ نے ان کے ساتھ بالکل فرزند کی طرح معاملہ کیا اور اپنی دامادی کا شرف بھی عطا فرمایا، حضور صلی الله علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتون جنت سیدہ حضرت فاطمة الزہرا کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا اور ان سے آپ کی اولاد ہوئی، صحابہ کرام میں جو لوگ اعلیٰ درجے کے فصیح وبلیغ اور اعلی درجے کے خطیب اور شجاعت و بہادری میں سب سے فائق مانے جاتے تھے ان میں آپ کا مقام و مرتبہ بہت نمایاں تھا، خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضی میدان جنگ میں تلوار کے دھنی اور مسجد میں زاہد شب بیدار تھے، مفتی و قاضی اور علم و عرفان کے سمندر تھے، عزم و حوصلہ میں ضرب المثل، خطابت و ذہانت میں بے مثل، حضور صلی الله علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد، فضیلتیں بے شمار، سخی و فیاض، دوسروں کا دکھ بانٹنے والے، عابد و پرہیز گار، مجاہد و جانباز ایسے تھے کہ نہ دنیا کو ترک کیا، نہ آخرت سے کنارہ کشی فرمائی، ان سب کے باوجود نہایت سادہ زندگی گزارتے، نمک، کھجور، دودھ، گوشت سے رغبت تھی، غلاموں کو آزاد کرتے، دورِ خلافت میں بازاروں کا چکر لگا کر قیمتوں کی نگرانی فرماتے، گداگری سے لوگوں کو روکتے تھے، جب نماز کا وقت آتا تو آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا اور چہرے پر زردی چھا جاتی، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا:
”اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے، جسے الله تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے عاجز ہو گئے۔“
ایک مرتبہ آپ قبرستان تشریف لے گئے اور وہاں پہنچ کر قبر والوں کی طر ف متوجہ ہو کر فرمایا:”اے قبر والو! اے بوسیدگی والو! اے وحشت وتنہائی والو! کہو کیا خبر ہے؟ کیا حال ہے؟ ہماری خبر تو یہ ہے کہ تمہارے جانے کے بعد مال تقسیم کر لیے گئے اور اولادیں یتیم ہو گئیں، بیویوں نے دوسرے شوہر کر لیے، یہ تو ہماری خبر ہے، تم بھی اپنی خبر سناؤ! اس وقت حضرت کمیل آپ کے ہمراہ تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت علی نے فرمایا: اے کمیل! اگر ان (مردوں) کو بولنے کی اجازت ہوتی تو یہ جواب دیتے کہ بہترین سامان آخرت پرہیز گاری ہے۔ اس کے بعد حضرت علی رونے لگے اور فرمایا:” اے کمیل! قبر اعمال کا صندوق ہے اور موت کے وقت یہ بات معلوم ہوتی ہے۔“
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ کے اصرار پر ضرار اسدی نے سیدنا حضرت علی کرم الله وجہہ کے اوصاف وصفات بیان کرتے ہوئے کہا:
”الله کی قسم! حضرت علی المرتضیٰ بڑے طاقت ور تھے، فیصلے کی بات کہتے تھے اور انصاف کے ساتھ حکم دیتے، علم وحکمت ان کے اطراف سے بہتے، دنیا اور اس کی تازگی سے متوحش ہوتے تھے، رات کی تنہائیوں اور وحشتوں سے انس حاصل کرتے تھے، روتے بہت تھے اور فکر میں زیادہ رہتے تھے، لباس انہیں وہی پسند تھا جو کم قیمت ہو اور کھانا وہی مرغوب تھا جو ادنیٰ درجے کا ہو، ہمارے درمیان بالکل مساویانہ زندگی بسر کرتے تھے اور جب ہم پوچھتے تو جواب د یتے تھے، باوجود یہ کہ ہم ان کے مقرب تھے، مگر ان کی ہیبت کے سبب ان سے بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی، وہ ہمیشہ اہل دین کی تعظیم کرتے اور مساکین کو اپنے پاس بٹھاتے تھے، کبھی کوئی طاقتور اپنی طاقت کی وجہ سے ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی امید نہ کر سکتا تھا اور کوئی کمزور ان کے انصاف سے مایوس نہیں ہوتا۔“
ایک موقع پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”علی! سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔“
سیدنا حضرت علی المرتضی غزوہٴ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے، ہر معرکے میں سیدنا حضرت علی نے اپنی شجاعت و بہادری کا لوہا منوایا، بدر و احد، خندق و حنین اور خیبر میں اپنی جرأت وبہادری کے خوب جوہر دکھائے … ہجرت کی شب حضور صلی الله علیہ وسلم کے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے اور آپ نے آخری وقت میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی تیمار داری کے فرائض انجام دیے اور دیگر صحابہ کرام کے ہمراہ آپ کو ”غسل نبوی“ کی سعادت بھی نصیب ہوئی … آپ”عشرہ مبشرہ“ جیسے خوش نصیب صحابہ کرام میں بھی شامل ہیں،جنہیں حضور صلی الله علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوش خبری دی اور خلافت راشدہ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے ،آپ کو بچپن میں قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی اور بچوں میں سے سب سے پہلے آپ ہی دولت ایمان سے منور ہوئے، آپ کو ”السابقون الاولون“ میں بھی خاص مقام اور درجہ حاصل ہے۔
آپ”بیعت رضوان“ میں شریک ہوئے اور ”اصحاب الشجرہ“ کی جماعت میں شامل ہوئے، جن کو الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں راضی ہونے اور جنت کی بشارت وخوش خبری دی، آپ ”اصحاب بدر“ میں سے بھی ہیں۔ مکی زندگی میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہر قسم کے مصائب ومشکلات کو جھیلتے رہے۔
خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد حضرت علی تین ماہ کم پانچ سال تک تخت خلافت پر فائز رہنے کے بعد عبدالرحمن بن ملجم خارجی کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد 21/رمضان المبارک کو جامِ شہادت نوش فرماکر شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوئے۔
حضرت علی کی شان میں تعریفی کلمات بہ زبان اصحاب نبوی:
٭ فاروق اعظم نے فرمایا: حضرت علی کو تین خوبیاں ایسی نصیب ہوئیں، اگر مجھے ان میں ایک بھی مل جاتی تو میرے لیے دنیا ومافیہا سے بہتر ہوتیں۔
1۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ کا ان سے نکاح فرمایا۔
2۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں مسجد میں سکونت عطا کی۔
3۔ خیبر میں علم (جھنڈا) انہیں عطا کیا۔
٭ سیدہ عائشہ نے فرمایا: حضرت علی سے زیادہ علم سنت کا جاننے والا کوئی نہ تھا۔
٭ ابن مسعود نے فرمایا: ہم لوگ آپس میں کہا کرتے تھے کہ حضرت علی اہل مدینہ میں سب سے زیادہ معاملہ فہم ہیں۔
٭ ابن عباس نے فرمایا: مدینہٴ منورہ میں فصل قضایا اور علم ِ فرائض میں حضرت علی سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی نہ تھا۔
اپنے مضمون کو ختم کرتے ہوئے،آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو آپ کا اور تمام اہل بیت کا و تمام صحابہ کرام کا سچا عاشق بنائے اور سب کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔