بادشاہت کسی کی میراث نہیں

25/01/2023

آپ نے بے شمار حکمرانوں کے متعلق پڑھا اور سنا ہو گا۔ آج جس حکمران کے بارے میں، میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں وہ کسی بادشاہ کا بیٹا نہیں، بلکہ بادشاہ وقت کا غلام تھا۔

متحدہ ہندوستان نے کثیر سلاطین اورفرما نروا دیکھے جو تخت ِ اقتدار کے وارث بنے اور گزرتے وقت کے ساتھ تاریخ کا حصہ بنتے گئے ۔ کچھ اقتدار کی ہوس کا نشان ہوئے اور کچھ عدل و انصاف اور سیاسی و دینی بصیرت کی وجہ سے اَنمٹ نقوش چھوڑ گئے ۔ 1206ء سے 1290ء تک ہندوستان میں ایک ایسی حکومت بھی اقتدار میں آئی جو غلاموں کی تھی جسے خاندان ِغلاماں کہا جاتا ہے ۔جس کی بنیاد شہاب الدین غوری کے ایک غلام قطب الدین ایبک نے رکھی۔ خاندان غلاماں کے دوسرے حکمران سلطان شمس الدین التمش نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی۔ ذیل میں ہم خاندان غلاماں کے اس عظیم سرخیل حضرت سلطان شمس الدین التمش کی مختصر سیرت پیش کرتے ہیں۔ شمس الدین التمش ترکستان سے تعلق رکھتے تھے ۔ تاریخ فرشتہ کے مطابق آپ کے بھائیوں نے مثل ِسیدنا حضرت یوسف علیہ السلام باپ کی آپ کے ساتھ غیر معمولی محبت کے سبب حسد و رقابت میں آپ کو ایک سوداگر کے ہاتھ فروخت کردیا۔ ترکستان سے ہوتے ہوئے آپ پہلے غزنی پھردہلی فروخت کیے گئے جہاں قطب الدین ایبک نے ایک لاکھ روپے کے عوض آپ کو ایک تاجر سے خرید لیا اور آپ اپنی فہم وفراست اور مجاہدانہ کردار کی بدولت نہ صرف فوج کے جرنیل مقرر ہوئے بلکہ آپ کی ہونہارِی اور تابعداری کی بدولت قطب الدین ایبک نے آپ کو اپنا داماد بھی بنا لیا۔ قطب الدین ایبک کے بعد ان کا نا اہل بیٹا آرام شاہ تخت نشیں ہوا تو سلطنت کے ٹکڑے ہونے لگے تب شمس الدین التمش نے 1211 ء حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ لے لی۔ اقتدارِ سلطنت اپنے ہاتھوں لینے کے بعد آپ کو کئی شورشوں اوربغاوتوں سے نبردآزما ہونا پڑا جن میں فتح ونصرت آپ کا مقدر بنی۔ تاج الدین یلدوز حاکم غزنی کو شکست دی اور پنجاب اور سندھ تک اپنی سلطنت کو وسعت دی اور ناصر الدین قباچہ کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ 622 ہجری میں لکھنؤ اور بہاراور بنگال کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔سندھ کے وہ علاقے اور قلعے جن کو فتح کرنا ناممکن تھا آپ نے ان کو فتح کیا۔مختصراً یہ کہ راجپوت ریاستیں، خلیجی امرائ، ترک امرائ، دہلی امرائ، فتنہ منگو ل اور تاتاریوں کی یلغار ان سب کا سدباب کیا۔ آپ نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کو استحکام و پائیداری بخشی۔ آپ نے نہ صرف اپنے پیشرو کی سلطنت کو محفوظ رکھا بلکہ اس میں نئے علاقے داخل کر کے اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ طبقات ناصری کے مطابق آپ اتنے خدا ترس، سخی اور صاحب تقویٰ تھے کہ آپ کی رعایا آپ کو ولی اللہ سمجھتی تھی۔ رات کا زیادہ ترحصہ عبادت میں اور دن میں خیرات وصدقات کرنا آپ کا معمول تھا۔ابن بطوطہ نے بیان کیا ہے کہ آپ عادل اور صالح تھے ، مظلوموں کی داد رسی پر مستعد رہتے ۔ چنانچہ آپ نے حکم دے رکھا تھا کہ جس کی داد رسی نہ ہورہی ہو وہ رنگین کپڑے پہن کر رکھے ۔تاکہ اس کی پہچان ہو سکے ۔ انصاف کی یقینی اور بروقت فراہمی کے لئے آپ نے اپنے محل کے باہر دوسنگ مرمر کے شیروں کے گلے میں موٹی زنجیریں ڈال کر گھنٹیاں لٹکا رکھی تھیں۔گھنٹیوں کی آواز سن کرخود باہر آتے اور سائل کی فوری داد رسی کرتے ۔ سب سے پہلے زنجیر ِعدل کا رواج بھی آپ نے ہی شروع کیا۔ سلطان شمس الدین التمش کے دور کو خلافت راشدہ ثانیہ اس لئے بھی کہا جاتا ہے بھیس بدل کر رعایا کی خبر گیری کرنا، خود کو ظاہر کیے بغیر ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کرنا اور راتوں کو جاگنا اور عبادت کرنا آپ کے معمولات تھے ۔ آپ اپنے خادموں کو تکلیف نہ دیتے بلکہ اپنے کام خود سر انجام دیتے ۔ ہمیشہ باوضو رہتے ، نیند کم کرتے۔ تہجد اور پانچ وقت باجماعت نماز سے کبھی غفلت نہ برتتے ۔ آپ عابد و زاہد اور صوفی منش،صحیح الاعتقاداور راسخ العقیدہ مسلمان تھے ۔ تاریخ فرشتہ کے مطابق عباسی خلیفہ المستنصر کی جانب سے آپ کو سلطان الہند اور ناصر امیرالمومنین کے القابات سے نوازا گیا۔ عہد سلاطین کتاب کے مطابق خلافت راشدہ کے بعد غالباً مشکل سے ہی کوئی ایسا حکمران تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے جو شمس الدین التمش کی طرح بیک وقت کئی اوصاف کا مالک ہو۔ آپ نے کئی مساجد بنوائیں، مدرسے تعمیر کئے اور علماء وفضلاء کی قدر کی اور بڑی بڑی تنخواہیں دیں۔ سلطان الہند غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی کشف الاسرار، گنج ِاسرار اور انیس الارواح جیسی تصوف و طریقت پر مشہور کتابیں آپ کے عہد میں ہی تالیف کی گئیں۔ اسی طرح جامع الحکایات اور طبقات ناصری کے مصنف قاضی منہاج بھی آپ کے زیر سایہ تھے ۔مسجد قوت اسلام اور قطب مینارکو آپ کے دور میں مکمل کیا گیا۔ آپ خود عمدہ خوش نویس اور خطاط تھے ۔ مسجد قوت اسلام اور قطب مینار پر کی گئی خطاطی دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔لاہور میں قطب الدین ایبک کا مقبرہ بھی آپ نے تعمیر کروایا۔ آپ مدّبر سیاستدان ہونے کے ساتھ صوفی اور صاحب معرفت وطریقت بھی تھے ۔ آپ درویشوں اور صوفیاسے ادب واحترام سے پیش آتے اور ان کے سامنے دو زانو بیٹھتے ۔ ان باکمال درویشوں کی صحبت نے آپ کو بھی درویش کامل بنا دیا تھا۔ کتاب سیر الاقطاب کے مطابق آپ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے 22 خلفا ء میں شامل تھے ۔ جن کو خرقہ ولایت عطاکیا گیا۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کو بے پناہ عقیدت تھی۔ اکثر ان سے مشورہ اور رہنمائی طلب کرنے ان کی خانقاہ جاتے ۔اسی طرح خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے پیرومرشد خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ جب دہلی تشریف فرما ہوئے تو آپ نے خود جا کر ان سے ملاقات کی اور دعائیں لیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے مرشد حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال پر لاکھوں کے مجمع میں جب یہ اعلان کر دیا گیا کہ خواجہ کی وصیت کے مطابق ان کا جنازہ وہ پڑھائے جس نے کبھی تکبیر اولیٰ اور عصر کی سنتیں ترک نہ کی ہوں تو مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا اتنے میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جنازہ کی امامت کے لئے آگے بڑھنے والی شخصیت وقت کے بادشاہ حضرت سلطان شمس الدین التمش ہیں جو روتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ حضرت خود تو پردہ فرما گئے مگر میر ا راز فاش کرگئے ۔آپ شعائر اسلامی کے اس قدر پابند تھے کہ بڑے سے بڑا فوجی و سیاسی بحران بھی آپ کے دینی فرائض منصبی سے آپ کو باز نہ رکھ سکا۔ 26سالہ طویل دور حکمرانی کے بعد آخر 20شعبان 633 ہجری بمطابق28 اپریل 1236ء آپ کا انتقال ہو ا۔ دہلی قطب مینار کے قریب دفن کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو سلطان شمس الدین التمش جیسا عظیم حکمران نصیب فرمائے جس سے ملک پاکستان کو دنیا کی امامت و قیادت نصیب ہو۔ آمین یا الہی آمین۔