ہمارے اسلاف کیا تھے اور ہم کسی ڈگر کے مسافر بن گئے

24/01/2023

 آج ایک ایسے مزدور کے بارے میں بات کروں گا کہ جو قلعے تعمیر نہیں کرتا ،پلازے نہیں بناتا ،موٹر ویز کے جال نہیں پھیلاتا ،بنگلے اور کوٹھیاں زمین پہ استوار نہیں کرتا ،ریل کی پٹڑیاں اور پل اسکے ہاتھ سے نہیں بنتے بلکہ وہ ایک ایسی چیز تعمیر کرتا ہے کہ جس سے اس کے وطن کی شناخت ہوتی ہے ،اسکے دین کی پہچان زمانے کے سامنے آتی ہے ،اسکی تہذیب اور تمدن نمایاں ہوتا ہے اسکی زبان سے دنیا آشنائی پاتی ہے اس مزدور کے ذمے جس شے کی تعمیر ہے اسے قوم کہتے ہیں وہ قوم تعمیر کرتا ہے اور اسے عرف عام میں استاد کہتے ہیں وہ استاد جو آدمی کو انسان کے سانچے میں ڈھالتا ہے اور انسان بنانے کے بعد اسکی انسانیت کے زیور سے تزئین و آرائش کرتا ہے ۔ماضی میں اس مزدور کا مرتبہ بڑا بلند ہوتا تھا آدمی کو انسان کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے وہ مکمل اختیارات سے لیس ہوتا تھا اسے یہ حق حاصل تھا کہ اسکی تراش خراش وہ اپنی مرضی کے مطابق کر سکے پھر میرے وطن میں ایک ایسا دور آیا جس میں حکومت وقت نے یہ فیصلہ کیا استاد کے ہاتھ سے تمام اختیارات چھین کر اسے نہتا کر دیا جائے ۔اب ذرا ایک نظر دیکھیں کہ استاد کن مراتب کا مستحق ہے اور ہم نے اسے کیا بنا دیا ہے ؟جس شخصیت کے بارے میں نبی مکرم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی ؑ اسکا دروازہ ۔ جنہیں باب العلم ہونے کا شرف بذبان رسالت ﷺ حاصل ہے وہ علی ؑ استاد کے مرتبے کے مطابق کیا فرماتے ہیں حضرت علی ؑ کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا استاد ہے گویا کہ میں اس کا غلام ہوا مقصد یہ کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ آقا اور غلام کے مصداق ہے کیا آقا کو حق حاصل نہیں کہ وہ غلام کی بہتری کے لئے اسے ڈانٹ سکے یا اسکی سرزنش کر سکے کیونکہ استاد کے کاندھوں پر ایک آدمی سے انسان تعمیر کرنے کی بھاری ذمہ داری ہے اس معمار کو اتنا تو حق ہونا چاہئے کہ دوران تعمیر اگر لیول سے ادھر ادھر نظر آئے تو اسے لیول میں لانے کیلئے کچھ کر سکے مگر ہمارے ہاں اسکے بالکل بر عکس ہو رہا ھے۔ کچھ صاحب سرور لوگ جن کے دم خم سے تعلیمی ادارے پنپ رہے ہیں۔۔۔ استاد کے مرتبے اور مقام کو یوں فراموش کئے بیٹھے ہیں جیسے وہ ان کے زر خرید غلام ہیں۔ وہ استاد جس کو آقا کی حیثیت حاصل تھی اسے ہم نے غلام بنا کر نہیں رکھ دیا ؟آخر ہم کس ڈگر پر چل نکلے ہیں ؟یہ ایجنڈہ ہے کس کا جس کی ہم اندھا دھند تقلید کرتے چلے جارہے ہیں؟ہمارے اسلاف تو وہ تھے کہ کسی اعزاز کے ملنے پر بھی اپنے اساتذہ کو فراموش نہیں کرتے تھے حکیم الامت علامہ اقبال ؒ کی مثال آپکے سامنے ہے کہ جب انگریز گورنر نے آپکو بلایا کہ تاج برطانیہ آپکو سر کے خطاب سے نوازنے کا ارادہ رکھتی ہے کیا آپ قبول فرمائیں گے تو آپ نے اسکو بھی مشروط کر دیا کہ ہاں قبول تو کر لوں گا اگر پہلے مولوی میر حسن ؒ (جو علامہ کے استاد تھے )کو شمس العلما ء کے اعزاز سے سرافراز کیا جائے انگریز گورنر نے پوچھا کہ وہ کتنی کتب کے مؤلف ہیں کیا انکی لکھی ہوئی کوئی تصنیف پیش کر سکتے ہیں آپ؟ تو علامہ نے بڑا لازوال جواب دیا کہ ہاں انکی ایک تصنیف ایسی ہے جسے عالمگیر شہرت نصیب ہوئی ہے اور وہ میں خود ہوں انکی جیتی جاگتی تصنیف جنہیں انہوں نے اس بہترین انداز میں لکھا ہے کہ آج تاج برطانیہ اس کو سر کا خطاب دینے جا رہی ہے ۔ کیسے عظیم شاگرد تھے جو اپنے استاد کی اسقدر عزت کرتے تھے کہ سبحان اللہ ۔ اور آج کیا ہو گیا ہے ہمیں کس قدر بے وقار کر دیا ہے ہم نے استاد کو کبھی وہ اپنے ہی شاگرد کے سامنے ہاتھ جوڑے معافی مانگنے پر مجبور ہے تو کہیں اس پر بلا وجہ ایف آئی آر چاک ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہوتی ہے آخر یہ سب کچھ کس کی خوشنودی کے حصول کے لئے کیا جا رہا ہے ؟ہم اپنی زبان سے منہ موڑ کر انگریزی کا طوق زیب گلو کر کے کس قدر مسرت محسوس کر رہے ہیں ،نصاب تعلیم ہم آج تک اپنا مرتب نہیں کر پائے ،آکسفورڈ سلیبس ہمارے لئے باعث فخر ہے ،ہمارا نظام تعلیم آج تک بیرونی ایجنڈے کا تابع فرمان ہے ،یہ سوچنے تک کی کبھی زحمت گوارا نہیں کی کہ جن کے دیئے ہوئے پیسے سے ہم اپنی نسلوں کو تعلیم دے رہے ہیں کیا وہ ہمیں اپنی مرضی کا نصاب پڑھانے کی اجازت دیں گے ؟قطعی طور پر وہ آپ کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ قبل ازیں نصاب میں سے انہوں نے آپ کی اسلامک تاریخ ،آپ کے ہیروز کی کہانیاں ،حتیٰ کہ سب کچھ تو نصاب میں سے نکال باہر کیا ہے اور اب استاد تک کو بے دست و پا کر کے تعلیم کی اہمیت ہی ختم کروا رہا ہے وہ بیرونی ایجنڈہ ۔ اس پہ طرہ یہ کہ ہم استاد سے اچھا رزلٹ بھی مانگتے ہیں اور اسے اتنی اجازت نہیں کہ اگر دوران سبق کوئی طالبعلم کمرۂ جماعت میں سویا ہوا بھی ہو تو استاد اسے جگا نہیں سکتا واہ بھئی واہ پھر کیسے اچھا رزلٹ دے پائے گا بیچارہ معلم۔
خدارا قوم کی تعمیر کرنے والے معمار کو اتنا بے توقیر مت کرو کہ مستقبل میں کوئی استاد بننے کی بجائے کسی اور کام کو ترجیح دینے لگے یہ انبیاء کا پیشہ ہے اسے تکریم بھی اسقدر دو جو اسکی شایان شان ہو۔
کیونکہ،استاد ایک ایسی ھستی کا نام ھے جو آپکو زندگی کا ڈھنگ سکھاتا ھے اور اگر میں یہ کہتی چلوں کہ استاد ھی وہ ھستی ھوتی ھے جسکی تربیت اور ھدایت پر ھم ساری زندگی گزارتے ھیں تو اس میں کوئی دو راے نہیں ھوگی۔ سکندرِ اعظم نے بھی اپنے استاد کی تعریف میں کہا تھا،”ارسطو زندہ رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو جائیں گے ،مگر ہزاروں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو کو جنم نہیں دے سکتے۔“اور اس نے یہ بھی کہا کہ ”میرا باپ وہ بزرگ ہے جو مجھے آسمان سے زمین پر لایا ، مگر میرا استاد وہ عظیم بزرگ ہے جو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔“ارسطو نے سکندرِ اعظم کو سبق دیا کہ ”ہر انسان خدا کا بندہ ہے اور ہر کسی کو با عزت زندگی گزارنے کا پیدائشی حق حاصل ہے۔“سکندرِ اعظم نے اپنے استاد کے سنہری اصولوں کو کبھی فراموش نہ کیا۔