ترک اپنے بچوں کو شیر کی بجائے بھیڑیا سے تشبیہ دیتے ہیں۔

17/01/2023

ہمارے یہاں شیر کو بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس کو جنگل کا بادشاہ تصور کیا جاتا ہے لیکن بھیڑیے کے بارے میں بہت سی ایسی معلومات ہیں جن سے ہم میں سے اکثر لوگ بلکل ناواقف ہیں اور ان خصوصیات کو جاننے کے بعد یہ فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑتی ہوں کہ کیا واقعی شیر اس منصب کا حقدار ہے یا بھیڑیا؟
ہم سب نے بہت شوق سے ڈراما سیریل ارطغرل دیکھا اور اس میں ایک حیران کن بات یہ دیکھی کہ جب کبھی کسی کی بہادری کی مثال دی جاتی تھی تو اس کو بھیڑیے سے تشبیہ دی جاتی ۔۔جب کہ ہمارے یہاں تو کسی کو بہادر کہنا ہو تو اسکو شیر کے نام سے بلایا جاتا ہے۔ جس طرح ہمارا قومی جانور مارخور ہے اسی طرح تُرک کا قومی جانور بھیڑیا ہے۔ اور بھیڑیوں سے متعلق جو معلومات ملی ہیں اور انکی جو خصوصیات پتہ چلی ہیں اس سے خیال ہوتا ہے کہ ترک ان کو کیوں اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ تُرک اپنے بچوں کو شیر کی بجائے بھیڑیا بولتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک شیر جیسا خونخوار ہونے سے بہت اچھا ہے کہ بھیڑیے کی طرح غیرت مند اور نسلی بنا جائے۔

ویکیپیڈیا کے مطابق ” بھیڑیا ایک ایسا جانور ہے جو اپنی آزادی سے بہت پیار کرتا ہے اور کسی صورت اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ بھیڑیا وہ واحد جانور ہے جس کو سدھایا نہیں جا سکتا یعنی اس کو غلام نہیں بنایا جا سکتا باقی سب جانوروں بشمول شیر کے ، غلام بنایا جا سکتا ہے۔ بھیڑیا غضب کی تیز نگاہ رکھتا ہے اور اتنا پھرتیلا ہوتا ہے کے کسی جن کو بھی سامنے دیکھ کر اس پر چھلانگ مار کر اس کو ختم کر سکتا ہے۔
بھیڑئے کی بہترین خصوصیات میں والدین سے حسن سلوک، اس کی بہادری ، وفاداری اور خودداری شامل ہیں۔ جو کہ اس کا طرہ امتیاز ہیں۔
بھیڑیے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ مردہ جانور نہیں کھاتا جو کہ جنگل کے بادشاہ کی خصوصیات میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھیڑیا میں پائے جانے والی خصوصیات اسے دوسرے جانوروں سے ممتاز رکھتی ہیں، یہ اپنی محرم مؤنث یعنی ماں اور بہن کے رشتے کو پہچانتا ھے۔ وہ ہمیشہ اپنی بیوی کا وفادار رہتا ہے اور ادھر اُدھر منہ نہیں مارتا۔ اسی طرح اس کی مادہ بھی ہمیشہ اسکی وفادار رہتی ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی مر جائے تو دوسرا اسکے مرنے والی جگہ پر کم از کم تین ماہ تک کھڑا رہ کر افسوس اور ماتم کرتا ہے۔۔۔ بھیڑیے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں کیوں کہ وہ ایک ہی ماں باپ سے ہوتے ہیں۔

عربی میں بھیڑیے کو “ابن البار” یعنی نیک بیٹا کہتے ہیں۔۔ کیونکہ اسکے والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو یہ انکا خیال رکھتا ہے انکے لیے شکار کر کے لاتا ہے۔ ایسی خاصیت اور کسی جانور میں نہیں ہوتی۔ بھیڑئے جب ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں تو ایک خاص طریقے سے انکا کارواں چلتا ہے جو کے اس کی دفاعی صلاحیتوں کے متعلق بھی کافی معلومات فراہم کرتا ہے۔ کارواں کچھ اس طریقے سے چلتا ہے۔۔
سب سے آگے بہت بوڑھے اور بیمار بھیڑیے چلتےہیں۔ اُن کے بعد پانچ ایسے بھیڑیے ہوتے ہیں جو بلکل طاقتور اور مستعد ہوتے ہیں وہ ان بیمار بھیڑیوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کو ہر قسم کی مدد فراہم کرتے ہیں۔
انکے بعد بہت چاق وچوبند، ہوشیار اور دفاع میں ماہر بھیڑیے ہوتے ہیں جو کہ کسی حملے کی صورت میں فوراً کارواں کا دفاع کر سکتے ہیں۔
درمیان میں سارے عام سے بھیڑیے ہوتے ہیں اور آخر میں ان سب کا قائد ہوتا ہے جو یہ نگرانی کرتا ہے کہ سب اپنے اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں کہ نہیں۔ عربی میں اس سربراہ کو الف کہتے ہیں یعنی جو سب سے الگ ہو اور اکیلا ہزار کے برابر ہوتا ہو۔ بھیڑیے کئ طرح کی آوازیں نکال سکتے ہیں۔
یقینا” آپ بھیڑیے سے متعلق معلومات پا کر متاثر ہو کر دل ہی دل میں اس کو شیر پر ترجیح بھی دے رہے ہونگے۔ میرے لئے بھی یہ حیرت انگیز معلومات کسی اچھمبے سے کم نہیں۔۔۔ ہم بچوں کو ان کی کہانیاں تو سنا سکتے ہیں، لیکن ان جیسا بننے کی ترغیب یا تشبیہ کیوں دیں؟
انسان کو اللہ پاک نے اشرف المخلوقات بنایا ھے، اسے تمام جانداروں پر فوقیت شعور، علم اور عقل کی بنا پر دی گئ ھے۔ الحمداللہ۔
یہ سب سمجھتے ہوئے،ضرور کہوں گی کہ بچوں کی اچھی تربیت اور انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط بنانے کے لئے جانوروں کی مثال نہ دیں۔۔۔ جانوروں کے متعلق ضرور بتائیں کہ یہ کن خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں، لیکن بچوں کو ہمیشہ اپنی دینی اور اخلاقی تعلیمات سے مستفید کرتے رہیں۔ بچوں کی اچھی پرورش، تعلیم و تربیت ہی انہیں اچھا انسان اور ذمہ دار شہری بنا سکتی ہیں۔ بچوں سے ہمیشہ پیار، شفقت اور شائستگی سے پیش آئیں، تاکہ وہ بھی اچھا لہجہ اپنا سکیں۔ بچے مثل آئینہ ہوتے ہیں۔۔۔بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا ” بچے گنبد کی آواز ہوتے ہیں” جس طرح آپ (والدین) کو دیکھتے سنتے ہیں، اسی انداز کو اپناتے ہیں۔ ان کو اچھا بن کے دکھائیں۔۔۔آپ کا ہر اچھا عمل ان کی شخصیت کو مظبوط، مکمل اور مستحکم بنا کر چار چاند لگا دے گا۔
ان شاءاللہ تعالی ، بارک اللہ فیک۔
الطاف حسین حالی فرماتے ہیں۔۔۔
فرشتے سے بہتر ھے انساں بننا
مگر اس میں لگتی ھے محنت زیادہ۔