ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے

14/01/2023

اللہ تعالی کی یہ سنت ہے کہ وہ ایسی قوم کی حالت
نہیں بدلتے جو اپنی حالت کو خود ہی نہ بدلنا چاہے
“اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِہِمْ” (الرعد :11)
بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے”
آج اگر ہم خود کو دیکھیں تو یہی وجہ ہے کہ ہمارے حالات نہیں بدلتے کیونکہ ہم خود ہی نہیں بدلنا چاہتے ۔۔۔آج اس معاشرے میں اگر کوئ ایک دھوکہ دے تو اسکی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی وہی شروع کردیتے ہیں، چوری کرنا دوسروں کا حق مارنا، مجبوری کا فائدہ اٹھا کر پیسے اینٹھنا —-غرض یہ چیز ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے کہ جو جیسے چاہتا ہے بس اپنا فائدہ ہو جس میں وہی کرتا ہے اور لوگ اسکو روکنے کے بجائے وہی کام شروع کردیتے۔۔۔۔ہم یہ تو چاہتے کہ ہمارے حالات بدل جائیں مگر ہم خود بدلنا نہیں چاہتے ۔۔۔۔اس قوم کے بگاڑ میں اس قوم کا ہی اپنا ہاتھ ہے ۔۔۔۔۔ہم اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی بے ایمانی اور دھوکہ دہی کرنا نہیں چھوڑتے ۔۔۔۔ہر برائی کی جڑ خود ہم سے ہی جڑی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔اگر کسی بھی برائی کو ختم کرنا ہے تو خود سے شروع کرنا ہوگا نہ کہ دوسروں سے ۔۔۔۔۔ہمارے معاشرے میں منافقت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جو غلط کام ہم خود کر رہے ہوتے ہیں اسی پر دوسروں کو کھلم کھلا لعنت ملامت کرتے ہیں آخر ہم دوسروں پہ انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان کیوں نہیں جھانکتے ۔۔۔۔لوگوں کو جج کرنا ہمیں خوب آتا ہے مگر ہر انسان خود کو کیوں اسی مقام پر نہیں رکھتا؟ پھر ہمیں اپنے معاشرے سے ڈھیروں شکایتیں ہیں مگر ان شکایتوں کو ہم خود میں سے دور کرنا ہی نہیں چاہتے ۔۔۔۔دوسروں کو انکے غلط کام پر ہمیں کٹہرے میں کھڑا کرنا خوب آتا ہے مگر ہماری اپنی باری کبھی آتی ہی نہیں!
آج اگر ہمیں اپنے معاشرے سے چھوٹی برائیوں سے لیکر بڑی برائیوں تک کا خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں خود سے ہی شروع کرنا ہوگا جو کام اگر کوئ دوسرا کرے اور ہمیں برا لگے دیکھئے کہ وہی کام کہیں آپ خود بھی تو نہیں کرتے؟ اگر کرتے ہیں تو پہلے خود کے اندر سے اس برائ کو دور کریں تبھی وہ برائی باقی معاشرے سے بھی. دور ہوگی وگرنہ کبھی نہیں ۔۔۔۔
ہر برائی کو دور کرنے کی ابتدا خود سے کریں پہلے خود کو بدلیں اسکے بعد ہی حالات بدلیں ورنہ حالات بدل جانا ایک خواب ہی رہے گا ۔۔۔۔۔
آج ہمارے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لے چکی ہیں ۔۔۔۔ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوچکے ہیں ۔۔۔۔وہ تعلیمات جو اللہ اور اسکے رسول نے ہمیں دیں انہیں تو ہم بس کتابوں میں پڑھنا پسند کرتے ہیں اسکے آگے اپنی زندگی میں اسے لاگو کرنے کا تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ۔۔۔۔وہ تعلیمات وہ زندگیوں کے نمونے ہمارے لیے مشعل راہ تھے. مگر ہم نے ان سب کو بس کتابوں اور تاریخ کا حصہ بنا کر رکھ دیا جبکہ ان ساری تعلیمات کو آج ہماری زندگیوں کا حصہ ہونا چاہیے تھا ۔۔۔۔جو ہمارے لیے مشعل راہ تھا، اسے تو ہم نے پس پشت ڈال دیا پھر جب ہم ناکام ہیں تو اس کا سارا قصور وار ہم دوسروں کو سمجھتے ہیں جبکہ قصور وار تو ہم ہی ہیں ______
ہم اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، رشتہ داروں سے حسد و بغض رکھنا، اپنوں کی عزت کا جنازہ نکالنا، لعن طعن کرنا، دوسروں کی ظاہری چکاچوند سے متاثر ہو کر اپنوں سے بدگمانیاں پیدا کرنا، چھوٹی چھوٹی باتوں میں کیڑے نکالنا وغیرہ وغیرہ نہیں چھوڑتے تو بڑے معاملات میں ہم کیسے نابردآزما ہوں گے؟
آج اگر کوئی اور بھی سچائی پہ گامزن ہوتا ہے تو ہم اسکا ساتھ تک نہیں دے پاتے یہی وجہ ھے کہ حق کیا ہے ہم یہ جان ہی نہیں پاتے ۔۔۔۔ہر چمکتی چیز کی طرف ہم دوڑتے ہیں ہر گناہ کی طرف ہم بھاگے بھاگے جاتے ہیں ۔۔۔ہم اپنا مقصد زندگی تو بھول ہی گئے!
ہماری زندگی کا مقصد پیسے کمانا، نام کمانا چاہے وہ کسی بھی طرح سے ہو بس یہی رہ گیا ہے ۔۔۔۔اچھائی اور برائی کی تمیز کو الماری میں لاک کرچکے ہیں جسکی چابی بھی ہم نے جان بوجھ کر کھودی ہے ۔۔۔
ہماری زندگی کا مقصد تو اصل میں اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنا تھا جس کیلیے ہمیں اس دنیا میں آزمائش کیلیے بھیجا گیا ۔۔۔مگر ہم نے اپنا مقصد زندگی بھلادیا اور اس زندگی کو دائمی سمجھ لیا ہے، حالانکہ بنانے والے نے بتا دیا کہ دنیا فانی ھے، اصل زندگی تو آخرت کا گھر ھے، جیسی جس نے سعی کی ویسا ہی پائے گا۔ _____
اس معاشرے کو بدلنے کیلیے خود سے آغاز کیجیے کہ جب تک آپ خود کو بدلنا نہیں چاہیں گے تو ہمارا حال یہی رہے گا
بقول شاعر :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کو بدلنے کا۔