یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا ہی سمجھ لیجئیے

15/10/2022

“یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا ہی سمجھ لیجئیے
اک آگ کا دریا ھے ، اور ڈوب کے جانا ھے”

بدعنوانی اپنے وسیع معنوں میں ہر دور میں موجود رہی ہے۔ صرف ڈگری کا فرق رہ گیا ہے۔ بادشاہتوں میں معاملات کو انجام دینے کے لیے بادشاہ کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ آج کل دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر محکمہ کا سربراہ انصاف نہ کرے تو پورا محکمہ کرپشن میں ملوث ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طاقت انسان کو بگاڑ دیتی ہے۔جب بھی انسان کو کچھ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے جس کی دوسرے آدمیوں کو ضرورت ہوتی ہے تو کرنے والا اس سے کچھ فائدہ اٹھاتا ہے۔ جب تک یہ فائدہ سماجی قوانین اور اخلاقی ضابطوں سے مطابقت رکھتا ہے، یہ سب ٹھیک ہے۔ اس سے آگے یہ کرپشن بن جاتی ہے۔ کرپشن بھی چاپلوسی سے پروان چڑھتی ہے۔
انتہائی دکھ اور رنج کی بات ھے، کہ جن بنیادوں پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا، ان محرکات کو پس پشت رکھتے ہوئے ہر طرح کی اور ہر سطح پر بد عنوانی اور کرپشن دندناتی پھر رہی ھے اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ قومی سرگرمی کے ہر شعبے پر کرپشن کا جن راج کر رہا ہے۔ غیر منصفانہ طرز عمل اس قدر پھیل چکا ہے کہ ایک عام آدمی مایوسی کا شکار ہے۔سرکاری دفاتر کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ پولیس، تعلیمی و تربیتی ادارے، ہسپتال، ریلوے اور ٹرانسپورٹ وہ محکمے ہیں، جوعوام کے خادم سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن آپ ان میں سے کسی بھی محکمے میں غیر قانونی رقم خرچ کیے بغیر معمولی کارروائی کی توقع نہیں کر سکتے۔ 
کہا جاتا ہے کہ کاغذ صرف اس وقت حرکت کرتا ہے جب اس پر کچھ چاندی کا وزن ڈالا جائے۔ کئی ایسے محکمے ہیں جہاں کرپشن  زندگی کا معمول بن چکی ہے۔ یہ واضح ہے کہ جب تک اس سلسلے کی ایک ایک کڑی کو چیک نہیں کیا جائے گا تب تک کرپشن یونہی منہ چڑاتی رہے گی۔

تاریخ گواہ ھے کہ وہی قومیں اپنی طاقت کا لوہا منوا رہی ہیں، جو کرپشن سے پاک ہیں۔ ادارے مضبوط ہیں اور اپنا اپنا کام ایمانداری اور غیر جانبداری سے کر رہے ہیں۔ ملک کی سالمیت اور بقا اسی میں ہے کہ ایماندار سربراہ منتخب کیا جائے جو ایسی قوتوں کو ختم کرنے اور اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک جرات مندانہ قدم اٹھائے، اس سے پہلے کہ ہمارے لیے بہت دیر ہوجائے۔ یہ ایک اچھے معاشرے کے تمام افراد کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس مسئلے کا طویل مدتی حل ایک مضبوط قومی کردار کی تعمیر میں مضمر ہے۔
ہمیں اپنی تعلیم کو اخلاقیات اور حب الوطنی پر مبنی بنانا چاھئیے۔ ہمیں اپنے اخراجات اپنے وسائل کی حد میں رکھنے چاھئیں۔ غیر ملکی اشیاء کی بجائے ملکی اشیاء کو ترجیح دینی چاھئیے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس مقصد کے حصول کے لیے ابلاغ کے تمام ذرائع یعنی پریس، مطبوعات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو استعمال کرنا ہوگا۔ یہ کچھ ایسے اقدامات ہیں جو مؤثر طریقے سے اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں۔ پس ہر فرد کے لئے ضروری ھے کہ اپنی اپنی جگہ پہ ان تمام حقائق پر عمل کرے چونکہ ۔۔۔
“عمل سے زندگی بنتی ھے، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ھے نہ ناری ھے”

اللہ تعالی ہمیں ہدایت دیں اور سیدھے راستے پر چلائے۔ آمین۔

نوٹ : قارئین حضرات بھی کرپشن کی روک تھام کے لئے مؤثر اقدامات پر روشنی ڈال کر میری معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔