یہ خوبصورت مقطع ایک بار پڑھنے سے سمجھ نہیں آتا
03/03/2024
یہ خوبصورت مقطع ایک بار پڑھنے سے سمجھ نہیں آتا، بار بار پڑھ کر کچھ سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش جاری و ساری ہے۔
شاعر بہار کی آمد پر اپنی خوشی اور دلی کیفیات کے اظہار کو قلم بند کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ، اے باغباں!! میرے محبوب
بہار آ گئ ہے اور میرا دل خوشی سے مچل اٹھا ہے۔ کہ میں گلاب کی شاخ کاٹوں، اس کا قلم بناؤں اور تیری شان میں کوئی دیوان لکھوں۔ میں ابید قرطاس(صاف شفاف کاغذ) پر تیری شان میں جو لکھوں وہ تیری شایان شان تصویر بن بھی سکے یا چہرے پر نقاب کا کوئی نقش کھینچ نہ سکوں۔ اور کاغذ تیری تعریف لکھے بنا ہی رہ جائے۔
شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہیں اور کہتے ہیں کہ: اگر واقعی تو اپنے محبوب کی شان میں کچھ لکھنا چاہتا ہے تو فلک جیسا صاف کاغذ لے اور آفتاب جیسا چمکتا اور مہتاب جیسا دمکتا ہاتھ میں قلم پکڑ لے۔
دل بیتاب کی کہانی بہت لمبی ہے، اس لئے اے قلم اسے لکھنے میں اتنی بیقراری سے کام نہ لے اور آرام سے تسلی سے لکھ۔
شاعر کہتے ہیں کہ، محبوب کی زلف خمدار کے لئے تو کئ قصیدے لکھے ہیں، جس میں قلم نے خط شکستہ کی طرح زلفوں کے بڑے پیچ و خم دکھائے ہیں۔ زندگی کی مہلت تو پانی کے بلبلے سے بھی کم ہے۔ اس لئے جام عشق بیان کرتے ہیں۔ اے قلم؛ تو جلدی سے کام لے رہا ہے۔ بس قلم تو اسی بادہ کشوں پر اکتفا کر لے، شراب عشق میں جلنے والوں کی حکایات بیان نہ کر، ورنہ قلم بادہ کشوں کے جگر کے کباب بنا دے گا۔
یہی کافی ہے کہ قلم گل گلاب کے قامت کے موافق محبوب کا عکس کھینچ لے اور شمشاد کے قد جیسا جواب میں مصرعہ بنا لے۔
عاجز، ہجر کی رات کی داستان نہ لکھنے بیٹھ جانا ورنہ یہ قلم ہی ہماری غمزدہ روح کے لئے عذاب بن جائے گا۔
اس غزل میں شاعر نے قلم کا استعارہ استعمال کیا ہے۔
یہ ترجمہ علامہ غلام مصطفٰی قادری صاحب کی مہربانی کا نتیجہ ہے۔