ہماری گفتگو ہماری پہچان
16/08/2022
اللہ رب العزت نے انسان کو مختلف نعمتوں سے نوازا ھے، لیکن ایک اصول قرآن کریم میں ذکر فرمایا کہ” ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ” پھر تم سے اس موقع (میدان حشر) میں نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔(التکاثر) یعنی ایسا نہیں کہ یہ نعمت مفت میں بن مانگے ملی، تو احسان فراموش بن کر جیسے چاہا اس کا استعمال کرلیا، بلکہ انسان سے اس بات کا بھرپور تقاضا ھے کہ وہ اس نعمت پر عملی شکر کا مظاہرہ کرے جس کی صحیح صورت یہ ھے کہ اس نعمت کا جیسا استعمال کرنے کا حکم ھے ویسا استعمال کرے۔
اسی لئے زبان جیسی عظیم نعمت دے کر اس کے تقاضے بھی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ھے کہ زبان کے ساتھ انسان کے فقط الفاظ کا تعلق نہیں بلکہ یہ انسانی کردار کی آئینہ دار ھے اور بہت سے نیک و بد اعمال کا بھرپور تعلق اس زبان کے استعمال سے ھے۔ اس لئے جس قدر ہو سکے ہمیں ایسی کوئی بات نہیں کرنی چاھئے جس سے کسی دوسرے کو دکھ پہنچے۔ مسلمان تو وہ ھے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ ہمیشہ بامقصد گفتگو کی جائے، بات مختصر اور پر اثر ہونی چاھئے۔ نفرت انگیز گفتگو سے اجتناب کیا جائے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ خاموش انسان کی زبان رکی رہتی ھے لیکن ذہن بہت اچھی طرح چلتا رہتا ھے۔وہ بھرپور توجہ کے ساتھ گفتگو سنتا رہتا ھے، خوب سمجھ سمجھ کر اپنے جواب کو مدلل کرتا ھے اور بر موقع مختصر پر اثر بات کہ کر اپنی خاموشی کو بہترین الفاظ کا لباس پہناتا ھے ۔