ہماری گفتگو ہماری شخصیت کی آئینہ دار
26/09/2023
گفتگو کا اصل مقصد سمجھنا ، سمجھانا ہے کہ جب انسان کسی سے ملتا ہے، تو گفتگو ہی سے اپنے خیالات، احساسات اور جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ گفتگو ایک ایسا ذریعہ ہے، جس سے کسی کے ذہنی معیار اور قابلیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہا جاتاہے کہ’’ہماری گفتگو، ہماری شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔‘‘حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ’’بہترین بات وہ ہے، جو جامع، بامعنی، مفید ، مدلل اور مختصر ہو”۔ دینِ اسلام نے ہمیں گفتگو کے بھی آداب اور طور طریقے سکھائے ہیں۔
بلاشبہ ہمارے پیارے نبی آخر الزمان روئے ارض پر سب سے زیادہ عُمدہ گفتگو فرمانے والی شخصیت تھے۔ حضورِ پاک صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں گفتگو کے جو اعلیٰ اصول تعلیم فرمائے، ان میں سب سے زیادہ زور اخلاق پر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے،’’لوگوں میں سب سے محبوب اور آخرت میں مجھ سے زیادہ قریب اچھے اخلاق والے لوگ ہوں گے”۔ دینِ اسلام ہمیں بدزبانی اور فضول گوئی سے روکتا ہے۔ کسی کی عیب جوئی، دِل شکنی و دِل آزاری سے نہ صرف مسلمانوں کو باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے، بلکہ اسے گناہ ِکبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم دورانِ گفتگو آداب ملحوظ رکھیں۔
اس طرح نہ صرف ہم گناہوں سے بچ سکتے ہیں، بلکہ اس سے ہماری اپنی عزّت اور توقیر میں بھی اضافہ ہوگا۔ کسی مجلس میں بیٹھ کر عیب جوئی نہ کریں، نہ کسی کی خامیوں کو زیرِ بحث لائیں۔ اسے اسلام نے اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے جتنا مکرہ فعل قرار دیا ہے۔ کسی کی اچھائیوں کو چھوڑ کر اس کے عیوب ٹٹولنا ایسا ہی ہے، جیسے مکھی تمام صاف اور پاکیزہ چیزوں کو چھوڑ کر گندگی پرجا بیٹھتی ہے۔
دورانِ گفتگو بامعنی اور عُمدہ الفاظ استعمال کریں، لہجہ نرم دھیما ہو۔ آواز بہت زیادہ بُلند نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو بُلند آواز سے بولنا پسند نہیں۔ قرآنِ حکیم میں بھی گدھے کی آواز کو سب سے بُری آواز اِسی لیے قرار دیا گیا ہے کہ وہ بہت بُلند ہوتی ہے۔ دورانِ گفتگو دوسروں کی تنقید حوصلے سے سُننا اور اس کا مدلل جواب دینا، اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے۔ تنقید کا جواب دینا ضروری ہو جائے، تو بھی لہجہ نرم رکھتے ہوئے شیریں زبانی اور بردباری سے کام لیں۔
دورانِ گفتگو، مخاطب کی عُمر اور مرتبے کو ملحوظ رکھنا بھی انتہائی اہم ہے۔ اگر شریکِ گفتگو کوئی بزرگ ہو تو بہت ادب و احترام سے گفتگو کی جائے اور اگر ہم عُمر ہے، تو بات چیت کا انداز بے تکلفانہ ہونا چاہیے ۔ اگر چھوٹا ہو، تو گفتگو کا پیرایہ شفقت آمیز اور اسلوب ناصحانہ ہونا چاہیے۔ یاد رکھیے، اپنی بات پر اَڑ جانا، زبردستی اسے درست ثابت کرنے کی کوشش اور سب سے منوانے کے لیے آواز اونچی کرنا انتہائی نامناسب طرزِعمل ہے۔ آداب ِگفتگو کا یہ اصول بھی خاص طور پر پیش نظر رہے کہ ہنسی مذاق میں بھی کسی کی توہین، تحقیر یا دِل آزاری کا پہلو شامل نہ ہو۔
عُمدہ گفتگو کا تقاضا یہی ہے کہ سب محظوظ ہوں اوربات کا لُطف اُٹھائیں۔آدابِ گفتگو میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دوسروں کو بھی برابر بولنے کا مساوی موقع دیا جائے۔ کسی کے خیالات سے اگر آپ متفّق نہیں، تو یک سر مسترد نہ کریں، دلیل سے کام لیں۔ خاص طور پر کسی کے مذہب یا عقیدے کے بارے میں لب کشائی سے پہلے اپنی بات پر ضرور غور کریں کہ کہیں یہ بات کسی اختلاف یا رنجش کا باعث تو ثابت نہیں ہوگی۔
بزرگوں نے اسی لیے ’’پہلے تولو، پھر بولو‘‘ کی صلاح دی ہے۔ دوران گفتگو اپنی بڑائی ظاہرکرنا پست ذہنیت کی عکّاسی کرتا ہے، اس سے ہمیشہ اجتناب برتیں۔ آپ کی گفتگو کا مقصد اپنی علمی قابلیت یا ذہانت کی دھاک بٹھانا ہرگز نہیں ہونا چاہیے، خصوصاً محفل میں بات چیت کے دوران اہلِ مجلس کی پسند اور رجحان کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے اور اس ضمن میں فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہی ہے کہ’’ لوگوں کی سمجھ کے مطابق بات کرو۔‘‘