کچھ دن پہلے ایک سبق آموز ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
03/03/2024
کچھ دن پہلے ایک سبق آموز ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں انسانی نفسیات کو سمجھتے ہوئے کہ اکثر لوگ بڑھاپے میں اکیلے پڑ جاتے ہیں، اور وہ کچھ اس قسم کے regrets کو اپنی سوچوں پر حاوی کر لیتے ہیں، پر دلالت کی گئ ہے۔
گھر، فیملی، مذہب، معاشرہ، سماج۔۔۔ یہ سب میرے انتہائی پسندیدہ مضامین ہیں، جن پر میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکتی ہوں۔ اور اپنے کئ مضامین میں پہلے بھی بات کرتی رہی ہوں۔۔۔ ویڈیو میں جن پانچ پوائنٹس کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1) کاش میں نے اپنی زندگی اپنے حساب سے جی ہوتی، یہ پرواہ کئے بغیر کہ لوگ کیا کہیں گے؟
2) کاش میں نے اتنا کام (hard work) نہ کیا ہوتا، فیملی کے ساتھ بھی وقت بتایا ہوتا۔
3) کاش مجھ میں اتنی ہمت ہوتی کہ میں لوگوں کو اپنی feelings بتا پاتا۔
4) کاش میں اپنے دوستوں کے ساتھ in touch رہتا اور ان کے ساتھ تھوڑا اور ٹائم گزارتا۔
5) کاش میں نے اپنے آپ کو خوش رہنے دیا ہوتا۔
رشتے کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور کیسے ہیں؟ ہمارے سب سے قریب رشتے خون کے رشتے ہوتے ہیں جو ہمیں قدرت کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں لیکن ہم اپنی زندگی میں اور بھی بے شمار رشتے بناتے ہیں۔ کچھ ہماری ضرورتوں کے تحت وجود میں آتے ہیں اور کچھ جذبات کے تحت بنتے ہیں۔ بعض اوقات ہم انجان لوگوں سے بھی رشتہ جوڑ بیٹھتے ہیں ، کبھی کسی کی آواز سے تو کبھی کسی کے لفظوں سے۔ لیکن ان تمام رشتوں کی اساس کیا ہے؟ ان کا جُڑے رہنا کس کے باعث ہے؟ اگر غور کیا جائےتو ہر رشتہ “محبت” کی ڈور سے جُڑا ہوتا ہے۔ اگر تو کسی بھی رشتے یا تعلق کے درمیان محبت نہ ہو تو پھر وہ غرض اور ضرورت کا رشتہ رہ جاتا ہے جو نہ ہی پائدار ہوتا ہے اور نہ ہی تسکین بخشتا ہے۔ دو افراد شادی کے بندھن میں بندھ کر گھرانہ بناتے ہیں۔ قدرت کا نظام ہے عورت کی کفالت اور تحفظ مرد کی ذمہ داری ہے، جبکہ عورت اپنے شوہر اور اس کے گھر کی وفادار اور عزت کی ضامن ہے۔ دو لوگوں کا یہ ساتھ وقت گزرنے کے ساتھ بتدریج پھلتا پھولتا ہے۔۔۔۔ یہ محبت کرنے والے ، دونوں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے، بہتر سے بہترین کی جستجو کے لئے زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کے لئے جت جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان دو، جنہوں نے اکھٹے پریکٹیکل لائف شروع کی تھی، میں دوریاں آگئیں؟؟؟۔۔۔ نہیں، اسلامی تعلیمات ہماری قدم قدم پر رہنمائی کرتی ہیں، بشرطیکہ ہم قرآن و سنت کی پیروی کریں۔ اگر وہ ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں اور بھروسہ و اعتماد کی فضا قائم رکھتے ہیں، تو یقینا” وہ دنیا و دین کی بھلائیاں پا سکتے ہیں۔
آجکل competition کا دور ہے۔ مرد و عورت سبھی کیریئر oriented ہیں اور ہر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی race میں سبقت لے جانے پر مصر ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، لوگ ڈیجیٹل ہو گئے ہیں۔ کام کا پریشر بڑھنے سے فیملی اینڈ فرینڈز دور ہوتے جارہے ہیں۔ ملاقاتیں تہواروں تک محدود ہو کر رہ گئیں ہیں۔ ہمیں بھی وقت اور زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے، اسی میں بہتری ہے۔۔۔ورنہ ہم بھی یہی سوچ پال لیں گے” یار زندگی بہت مصروف گزر گئ، اپنے پیاروں کو وقت نہ دے پائے۔ اپنی feelings کے اظہار کا وقت نہیں ملا۔
قدرت آپ پر بہت مہربان ہے۔۔۔ آپ چھٹیوں میں اپنی فیملی یا یار دوستوں کے ساتھ recreational trip plan کرتے ہیں، اکھٹا وقت ساتھ گزارتے ہیں، خوب انجوائے کرتے ہیں۔ اس سے بڑی اور کیا خوشی ہوگی۔
میں یہاں اپنی ینگ جنریشن کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ضرور quote کروں گی، آپ نے فرمایا: ” شوہر کا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھنا اس اعتکاف سے زیادہ پسند ہے جو مسجد میں ادا کیا جائے”۔ ( کتاب میزان الحکمت صحفہ نمبر 68)
یہ تو ہیں وہ اپنی دھن کے پکے، سچے اور کھرے لوگ۔۔۔۔ جو دین اور دنیا ساتھ لے کر چلتے ہیں، اپنے اور اپنے پیاروں کی زندگی مصروفیت کے باوجود خوش اخلاقی اور شفقت سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں۔ ایک دوسری سوچ (school of thought) یہ بھی ہے۔۔۔ جو کہ معاشرے میں آجکل زیادہ پنپ رہا ہے۔
انسان اپنی فطرت سے مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی محبت پر یقین نہیں کرتا ہے اور اُنہیں آزمائش میں ڈالے رکھتا ہے کہ جان پائے کہ کون کس سے کتنی محبت کرتا ہے۔ آزمائش انسانی رشتوں کے درمیان محبت کو مضبوط کرنے کے بجائے اُس میں دراڑ ڈال دیتی ہیں کیونکہ ہم آزمائش کے دوران اپنے پیاروں کو ناراض کر بیٹھتے ہیں جس سے رشتے کمزور ہوجاتے ہیں۔ انسان سے انسان کا رشتہ محبت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور یہی پیار اور توجہ ان رشتوں کا مان ہوتا ہے جو آزمانے سے ٹوٹ جاتا ہے پھر سوائے دُکھ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ہمیں اپنے رشتوں کو وقت دینا چاہئے نہ صرف بُرے وقت میں بلکہ عام حالات میں بھی ایک دوسرے کی ضرورتوں سے واقف رہنا چاہئے تاکہ دلوں میں قدورتوں کو جگہ نہ ملے اور نہ ہی ہمیں اور نہ ہی ہمارے اپنوں کو آزمائش کی چکّی میں پیسنا پڑے۔
انسان کا ایک رشتہ جو کہ اس دنیا میں آنے سے بھی پہلے جُڑتا ہے وہ اُس کی بنانے والی ذات سے قائم ہوتا ہے ۔ اپنے رب سے جُڑا یہ رشتہ سب سے مضبوط اور پائدار رشتہ ہوتا ہے۔ انسان کا تعلق ربِّ کریم سے قدرتی اور آفاقی ہوتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے درمیان محبت کا وجود نہ ہو ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم دنیا کی حرص اور لالچ کے سمندر میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ پھر ہمیں اپنے رب کی قربت کا احساس نہیں ہوتا۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ جس نے ہمیں زندگی کی نعمت بخشی ہے وہ ہم سے ہماری بے انتہا پیار کرنے والی ماؤں سے بھی 70 گنا زیادہ پیار کرتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری ہر سانس اُس کی امانت ہے اور ہم اس کے لئے اُس کے محتاج ہیں۔ اُس کے اذن کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے ہیں پھر بھی دنیا داری میں اس قدر جُت جاتے ہیں کہ اُس سے رشتے کی اساس کو بھول جاتے ہیں۔ وہ اپنی تمام تر محبّتوں کو اپنی نعمتوں کی صورت ہمیں بخشتا ہے اس کے بدلے ہمیں صرف اُس کا حق ادا کرنا ہے جو کہ عبادات کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے جو ہماری جانب سے اُس سے محبت کا اقرار اور جواب ہے بلکہ اپنے دلوں کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔ لیکن ہم اپنے دنیاوی رشتوں کی طرح اپنے رب سے بھی رشتہ صرف اپنی ضرورتوں کے تحت جوڑتے ہیں یا تو تکالیف میں اُس سے مدد مانگ کر یا پھر اپنی پریشانیوں سے نجات کے لئے۔
جیسا کہ انسان کا ہر رشتہ “محّبت” کے ڈور سے جُڑا ہوتا ہے اسی طرح انسان کا اپنے رب سے رشتہ بھی فقط محبت کی ڈور سے جُڑا ہوتا ہے لیکن اُس سے یہ رشتہ وقت اور ضرورتوں کا محتاج نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ تو مسلسل ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ جیسا کہ محبتوں کو ہمیشہ اظہار کی ضرورت رہتی ہے اسی طرح اپنے رب سے محبت کا اظہار بھی مسلسل ہونا چاہئے ۔ جس طرح ہم اپنوں سے اپنی محبت کا اظہار تحفے تحائف دے کر کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالی سے محبت کا اظہار بھی عبادات میں باقاعدگی اور اُس کے احکامات کی تکمیل کا تحفہ دے کر کرسکتے ہیں۔
آپ اپنوں سے اپنے رشتوں کو کس طرح مضبوط کرتے ہیں؟