پیار و محبت کی عجب داستان
14/10/2024
رشتوں کی اپنی ایک عجیب کائنات ہوتی ہے۔ ہر رشتہ اپنی اپنی جگہ اہم اور معتبر ہوتا ہے اور ہر رشتے کی محبت کا اپنا ہی ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ دنیا میں آج تک ان قدرتی رشتوں کی محبت اور پیار کو ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں بن سکا۔ یہ رشتے قدرت کے تخلیق کردہ ہوتے ہیں اور ان کی محبت بھی قدرت کی جانب سے ودیعت کی جاتی ہے۔ ان ہی رشتوں میں ہمارے بزرگوں سے قائم بچوں کی انسیت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بزرگوں سے محبت کا پیمانہ تو کوئی نہیں ہوتا ہے مگر محبت کا اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے وہ بھی ان کی زبان یا کلام سے نہیں بلکہ ان کے رویے سے سامنے آتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ بچہ اور بوڑھا دونوں یکساں ہوتے ہیں۔ بزرگ اپنے بچوں (یعنی اولاد ) سے بھی زیادہ ان کے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی دادا کی آخری محبت اس کا پوتا ہوتا ہے۔ پوتے سے دادا بننے کا یہ ایک طویل سفر ہوتا ہے جو محبت سے شروع ہو کر محبت پر ختم ہوتا ہے۔ رشتوں کی یہ خوبصورت لڑی بننے میں کم ازکم پچیس، چھبیس سال امیدوں اور آرزؤں کی شمع جلانی پڑتی ہے تب جا کر ایک خوش قسمت انسان کو یہ پوتا نامی کھلونا کھیلنے کو ملتا ہے۔ اس کے کان برسوں انتظار کے بعد لفظ ”دادا“ سن کر نہال ہو جاتے ہیں۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عمر کے اس حصے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جہاں ہمیں نانا جان/ دادا جان، نانو جان / دادو جان کہنے والے معصومیت اور شرارتوں کی خوبصورت نمائندگی کرتے ننھے پھول اپنے حصار میں لۓ خود کو محفوظ و محترم سمجھتے ہوئے proud feel کرتے ہیں.
میری باتیں سن کر یا میرے مضامین کا تذکرہ میری بیٹی کی زبانی سن کر میرا نواسہ جو ابھی چھٹی جماعت کا طالب علم ہے وہ اکثر مجھے اپنی تقاریر اور declamation لکھ کر بھجواتا ہے جو بڑے دلچسپ اور ٹوپک کے عین نقطے پر ہوتے ہیں۔ ماشاءاللہ. اسی طرح ہمارے پوتے اپنی اپنی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، بچیاں بھی پورا فرمائیشی پروگرام ساتھ لے کر آتی ہیں. اپنی عمدہ کارکردگی چاہے پڑھائی میں ہو یا کھیل میں… سرٹیفکیٹ دکھا کر شاباشی کے ساتھ انعام بھی وصول کرتی ہیں. اور کیوں نہ کریں یہ پیار کے رشتے… سچے… انمول اور بے لوث رشتے… جو زندگی کا حسن بھی ہیں اور نعمت بھی.
زمانے بیتے گۓ… جب ہم بھی بچے تھے… اپنے ننھیال اور ددھیال کی آنکھوں کا تارا تھے. ان کے آنگن میں دوڑتے بھاگتے سیڑھیاں چڑھتے چھت پر جا چڑھتے… پیار و شفقت کا کیا دور تھا… مل جل کر کھیلتے، سب اکھٹے کھانا کھاتے. دادا، دادی اور نانا نانی ہمارے بچپن سے جڑے وہ رشتے ہیں جنہیں ہم اپنے والدین کے بارے میں بھی شکایت سنانے کے لیے بھاگتے ہیں کہ وہ ہماری بات نہیں مان رہے اور سمجھتے ہیں کہ وہی ہماری داد رسی کر سکتے ہیں۔ وہ ہمارے بیسٹ فرینڈز ہی نہیں بلکہ گاہے بگاہے ہماری اصلاح اور تربیت میں بھی معاون کردار ادا کرتے ہیں. یہ خاندان کے مینار کی حیثیت رکھتے ہیں، جس کی بنیاد میں ان کا خلوص، پیار، میٹھاس اور توجہ، ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند تعمیر ہوتا ہے.
بے شک یہ رشتے ہماری زندگی میں بہت اہم ہوتے ہیں بلکہ یہ ہمارے گھر کی وہ جڑیں ہوتی ہیں۔ جن کے تعاون کے بغیر ہم اپنا وجود ہی نامکمل سمجھتے ہیں۔ یہ رشتے ہمارے بچوں کی زندگی کا سب سے ناگزیر حصہ ہوتے ہیں گو ان کے ساتھ بہت کم وقت گزارنے کا موقع ملتا ہے، مگر وہ لمحات زندگی میں مختصر ترین یادگار ہوتے ہیں۔ وہ بچے بہت ہی خوش قسمت ہیں جن کو ان رشتوں کے ساتھ جینے اور ان کی محبت کے مواقع مل جاتے ہیں۔ جس دن یہ گھنے شجر ہمارے آنگن میں نہیں رہتے تب ان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور زمانے کی کڑی دھوپ کا احساس اور شدت بھی ستانے لگتی ہے۔ یہ رشتے نظروں سے تو ہٹ جاتے ہیں لیکن کبھی دلوں سے نہیں جاتے۔ دن، ہفتے، ماہ، سال ہمیشہ گزرتے رہیں گے اور وقت ہمیشہ گزرتا رہے گا لیکن ان رشتوں کی یادیں ہمیشہ ذہن پر نقش رہتی ہیں۔ ان کے بغیر ہمارا وجود ناممکن اور نامکمل ہے چونکہ ماضی کے بغیر کوئی وجود نہیں ہو سکتا اسی طرح نوجوان بھی بوڑھوں کے بغیر اپنا وجود نہیں رکھ سکتے. انہی رشتوں کی طاقت سے ہماری دنیا مستحکم رہتی ہے۔ انہیں خراج تحسین پیش کرنا اور ان کی بخشش و مغفرت کی دعا کرنا ہر عمر کے ان لوگوں پر فرض ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں ان کی محبتیں سمیٹی ہیں۔
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے