ملک بھر میں مون سون کا اسپیل جاری ہے

29/10/2024

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بارش کی تباہ کاریاں اہل وطن کے لیے نئی بات نہیں ہے۔ ہر سال بارشوں کے سیزن میں بیسیوں ہلاکتیں ہوتی ہیں،مال نقصانات الگ ہوتے ہیں۔ شدید بارش، ندی نالوں میں طغیانی اور دریاؤں میں سیلاب آنے کی وجہ سے متعدد شہری و دیہی علاقے تباہی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مکانات منہدم، کھڑی فصلیں برباد اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوتے ہیں۔ یہاں سوال وہی پرانا ہے کہ ہرسال بارشیں اور سیلاب آتے ہیں، یہ عمل کمی بیشی کے ساتھ صدیوں سے جاری ہے۔ اس کے باوجود آج کے جدید دور میں پاکستان میں بارشوں کے پانی اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے کام نہیں کیا گیا تو اس کی ساری ذمے داری حکومتوں اور سرکاری محکموں کی افسرشاہی اور عملے پر عائد ہوتی ہے۔ ملک بھر میں نکاسی آب کا نظام انتہائی ناقص ہے.

پاکستان میں گلوبل وارمنگ یا موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں میں اضافے اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا چھٹا ملک بن گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں قدرتی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں تباہ کاری قدرتی آفات کی وجہ سے کم اور ناقص منصوبہ بندی اور فرائض ادا نہ کرنے کی وجہ سے زیادہ ہے۔

حکومت قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن سرکاری اداروں کو جاری فنڈز کا حساب تو لے سکتی ہے، ضلع انتظامیہ، سی اینڈ ڈبلیو، ایریگیشن، میونسپل کارپوریشن، اتھارٹیز، واسا، محکمہ تہہ بازاری، اور دیگر متعلقین سے جواب طلبی تو کر سکتی ہے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات امداد اور بحالی کی مساعی تو ممکن ہیں۔ درحقیقت ہم اتنے آبی ذخیرے بنا سکتے تھے کہ یہ سیلابی پانی پاکستان پر عذاب بن کر نازل نہ ہوتا بلکہ خوشحالی لاتا ، زیر زمین پانی کا لیول بلند رہتا، زراعت کو پانی میسر آتا، توانائی ملتی، بنجر علاقوں اور صحرائی علاقوں کو پانی میسر آجاتا مگر ہمارے پالیسی سازوں کی ترجیحات مختلف رہی ہیں۔

آج پاکستان کو معاشی طور پر اپاہج بنادیا گیا ہے۔ پاکستان کی زراعت و صنعت دونوں زوال پذیر ہیں۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور پشاور جیسے شہروں میں لوگوں نے ایسی جگہوں پر رہائشی آبادیاں قائم کی ہوئی ہیں، جو نشیبی علاقے ہیں، جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معمولی بارشوں سے بھی نشیبی آبادیاں پانی سے بھر جاتی ہیں۔ حکومتی محکموں، ریاستی اداروں، فلڈ ریلیف کمیشن، ماحولیاتی ایجنسی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور بلدیاتی اداروں کے کرتا دھرتاؤں پر قوم اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ محکمہ موسمیات کی یومیہ پیش گوئیاں ہوتی ہیں، جن کا مقصد حکومت اور اس کے متعلقہ محکموں کو خبردارکرنا ہوتا ہے، مگر پاکستان میں بارشیں اکثر باعث زحمت قرار دی جاتی ہیں۔

نہ فصلوں کے حیات نو اور زراعت کی بالیدگی کے لیے رین ایمرجنسی کام آتی ہے اور نہ سبزے، مویشیوں کے چارے، اجناس، پھل، پھول اور سبزیوں کی کاشت کے لیے فطرت کی فراخدلی اور برستے پانی سے استفادے کا کوئی مستقل میکنزم بنایا جاتا ہے۔ ٹریفک سسٹم کنٹرول کیا جاتا ہے نہ سیوریج، ڈرین سسٹم… اگر سرکاری اداروں کی بیوروکریسی اور ملازمین سے قانون کے مطابق کام لیا جائے تو کہیں بھی سڑکیں تالاب اور نشیبی علاقے جھیلوں کا منظر پیش کرتے دکھائی نہ دیں۔