محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
17/10/2023
(صوفیانہ کلام :جگر مراد آبادی)
حیرت عشق نہیں شوق جنوں گوش نہیں
بے حجابانہ چلے آؤ مجھے ہوش نہیں
رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں انہیں ہوش نہیں
میکدہ ساز ہوں میں میکدہ بردوش نہیں
کہہ گئی کان میں آکر تیرے دامن کی ہوا
صاحبِ ہوش وہی ہے کہ جسے ہوش نہیں
کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں
محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش نہیں
مل کے جس دن سے گیا ہے کوئی اک بار جگر
مجھ کو یہ وہم ہے جیسے میرا آغوش نہیں
سبحان اللہ، کیا خوبصورت صوفیانہ کلام ہے۔ کلام کا لب لباب یہی ہے کہ “سبحان اللہ بحمدہ سبحان اللہ العظیم”۔
کائنات کی ہر شے ملائکہ، جن و انس، پہاڑ، سمندر، اشجار، چرند پرند غرض کہ ہر جاندار اللہ بزرگ و برتر کی بزرگی، پاکی اور حمد و ثنا کرتے ہیں۔ جس نے اللہ سے رابطے اور واسطے جوڑ لئے اسے دنیاوی خواہشات سے کیا غرض۔ اور جب یہ شعور بیدار ہو جائے تو دنیا رہنے کی جگہ نہیں لگتی۔