محرم اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے۔
08/07/2024
اسے محرم الحرام بھی کہتے ہیں۔ اسلام سے پہلے بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے یہ احترام جاری رکھا۔ اس مہینے میں جنگ و جدل ممنوع ہے۔ اسی حرمت کی وجہ سے اسے محرم کہتے ہیں۔
اسلامی ہجری سال کی ابتدا ماہِ محرم الحرام کی پہلی تاریخ سے ہوتی ہے۔ اسلامی سال کی پہلی تاریخ کا سورج طلوع ہوتے ہی عالمِ اسلام کو فاتح فارس و روم جنابِ سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی یاد دلاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلام کے جھنڈے کو بائیس لاکھ مربع میل پر لہرایا۔ آپ ؓ جزیرہ عرب کے تیسرے بلند مرتبت انسان تھے اور آپ ؓ کے فضائل و مناقب کی روشنی ہرچار سو پھیلی ہوئی ہے۔ آپ ؓ کی شہادت عالمِ اسلام کے لیے یاد دہانی ہے کہ وہ سار ا سال عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نقشِ قدم پر چلیں۔
محرم الحرام کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے، اس کے ساتھ ساتھ دین حق کے ماننے والوں کیلئے اس ماہ کی حرمت اس لئے بھی برتر ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے سیدنا حضرت امام حسین ؓ ان کے اہل خانہ اور اہل بیت نے کربلا کے میدان میں کلمہ حق پر لبیک کہتے ہوئے باطل یزیدی قوت کے ہاتھوں اپنی جان نثار کر دی لیکن اپنے نانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں تحریف کے سامنے گردن نہ جھکائی۔
کربلا میں حق و صداقت کا علم بلند رکھنے کے لئے امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ظلم و جبر کی اطاعت کرنے کے بجائے شہادت کا راستہ اختیار کیا اور دنیا کو یہ سبق دیا کہ حریت ایک بنیادی حق ہے جو دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
حق کی حفاظت کرنا اپنی جان کی حفاظت کرنے سے زیادہ ضروری ہے، یہی وہ پیغام ہے جو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت سے ہمیں ملتا ہے۔
تاریخ عالم میں ایسی قربانی اور استقامت کی کوئی مثال موجود نہیں۔ امام عالی مقام کا یہ پیغام پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔
نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظیم قربانی اور کربلا حق اور باطل کا معرکہ تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش حقیقت ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظرانداز نہیں کر سکتا۔
اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہونا اور اختتام ذوالحجہ میں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی نظام کی ابتداء اور انتہا ایثار فداکاری اور عشق الہی سے شروع اور ختم ہوتی ہے۔
جس طرح جناب ابراہیم علیہ السلام نے عشق الہی کے جذبے میں اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا عمل پیش کیا بالکل اسی طرح وراث ابراہیم نے کربلا میں امت کی ڈوبتی کشتی کو قربانی کے ذریعے کنارے تک پہنچا کر اسلام کو ایک نئی زندگی بخشی۔
اسی لئے شاعر مشرق حکیم الامت حضرت اقبالؒ نے کیا خوب کہا کہ:
غریب و سادہ رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل
آج جب دنیا میں مسلمانوں، خاص کر فلسطین پر ہونے والے مظالم پر نظر دوڑائیں تو کربلا یاد آتا ہے۔ لیکن طاغوتی طاقتوں کے سامنے آج ہم نے اپنے مفادات کا سودا کرتے ہوئے وہ ایمانی قوت بیچ چکے ہیں، تمام عرب ریاستیں آمرانہ صلاحیتیں رکھتے ہوئے محو تماشائی ہیں۔ کسی ملک کی جانب سے اسرائیل کو منہ توڑ جواب نہیں دیا گیا اور نہ ہی کسی نے اس ظلم و جبر کے گرم اور بہتے لہو کے بازار کو روکنے کے لئے جہاد کا بیڑا اٹھایا۔
افسوس کہ مسلمان ہی مسلمان کے کام نہ آنے والے زندہ بمثل مردہ ضمیر فروش ہیں۔
ہمارے حکمران۔۔۔ “خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گئے” کے مترادف ہیں۔
پھر بھی بحیثیت مسلمان ہماری دعا ہے کہ جس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ یزیدیت کی بیعت تسلیم نہ کرتے ہوئے، حق کی خاطر جہاد کرتے ہوئے اپنا پورا خاندان قربان کردیا، اسی طرح اللہ تعالی ہمیں بھی وہ جذبہ ایمانی عطا فرمائے کہ ہم بھی یزیدی طاقتوں کی پیروی کرنے کی بجائے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ان کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے دشمنوں کو زیر کر سکیں۔
علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
یا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے
پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے
محروم تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے
پیدا دل ویراں میں پھر شورش محشر کر
اس محمل خالی کو پھر شاہد لیلا دے
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو
وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے
رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر
خودداری ساحل دے، آزادی دریا دے
بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو
سینوں میں اجالا کر، دل صورت مینا دے
احساس عنایت کر آثار مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشہء فردا دے
میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں ، محتاج کو ، داتا دے!