ماہِ صیام تیرا کیوں نہ ہو احترام

01/03/2025

“ماہِ صیام تیرا کیوں نہ ہو احترام
کہ نازل ہوا تجھ میں اللہ کا کلام”

یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۳، ۱۸۴)
اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ، چند روز ہیں گنتی کے۔‘‘

“إذا دخل رمضان فُتحت أبواب السماء، وفی روایۃ: ’’فُتحت أبواب الجنۃ‘‘ وغُلقت أبواب جہنم ، وسُلسلت الشیاطین، وفی روایۃ ’’فُتحت أبواب الرحمۃ۔‘‘ (متفق علیہ، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الصوم،ص:۱۷۳)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں بجائے ابوابِ جنت کے ابوابِ رحمت کھول دیئے جانے کا ذکر ہے۔‘‘

سال بھر کے مہینوں میں رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں آتا ہے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْأٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّـنٰتٍ مِّنَ الْـہُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔‘‘ (البقرۃ:آیت:۱۸۵)
’’رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے راہنمائی، ہدایت اور حق و باطل میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے، پس جو کوئی یہ مبارک مہینہ پائے اُسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘

اسی ماہ کو شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر مکمل قرآن کریم کا نزول ہوا، جیسا کہ ارشادِ خدواندی ہے:
’’إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ تَنَزَّلُ الْـمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلٰمٌ ہِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔‘‘ (القدر:۳-۵)
’’بلا شبہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیسی چیز ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر معاملہ لے کر حاضر ہوتے ہیں، یہ رات سراسر سلامتی ہے، وہ یعنی اس کی خیر و برکت صبح طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔‘‘
اس لیے ہمارے اکابر نے رمضان میں روزہ اور تراویح کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کو سب سے بہتر عبادت قرار دیا۔

رمضان کی ہر رات ایک منادی اعلان کرتا ہے: ’’یا باغي الخیر! أقبل ویا باغي الشر! اقصر۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص:۱۷۳) ۔۔۔۔۔’’اے خیر کے طالب! آگے بڑھ، اور اے شر کے طالب! رُک جا۔‘‘ یعنی خیر کے متلاشی اللہ تعالیٰ کی رضا والے کاموں میں مشغول ہو اور اس کی نافرمانی اور گناہوں سے باز آجا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اثر اور ظہور ہر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ رمضان میں اہلِ ایمان کا عموماً رجحان اور میلان نیکیوں اور عبادات کی طرف زیادہ ہوجاتا ہے۔
روزہ کا منشأ یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا جائے، یعنی روزہ کے ساتھ ساتھ تراویح ، اشراق، چاشت، اوابین، صلاۃ الحاجۃ، صلاۃ التسبیح، تلاوتِ قرآن، اللہ تعالیٰ کا ذکر، صدقہ، خیرات، عشرۂ اخیرہ کے اعتکاف کی کوشش، شبِ قدر کی تلاش اور دعاؤں کی کثرت کا معمول بنایاجائے اور جتنا ہوسکے ان پر عمل کیا جائے۔
اس ماہ میں غریبوں، یتیموں ، بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ ایثار اور ہمدردی کامعاملہ کیا جائے، ان پر سخاوت کی جائے، یہ اس لیے کہ ایک تو ان کا حق ہے اور دوسرا اس لیے کہ صدقہ وخیرات کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کا دل خوش ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور ہمارا مقصد پورا ہوجائے۔ یا ہوسکتا ہے ہماری عبادت، ہماری تلاوت، ہماری نمازوں میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا اس قابل نہ ہوں کہ وہ قبولیت کامقام حاصل کرسکیں تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمالیں، اس لیے اس ماہ میں ہمیں پوری طرح خیرات وصدقات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
بہرحال اس کی عظمتوں، برکتوں اور خصوصیتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی حرمت کا پورا لحاظ رکھے کہ رمضان اللہ تعالیٰ کا شاہی مہمان ہے، جو ہمارے پاس رحمت کی موج بن کر آتا ہے، اس لیے اس کے منافی کوئی کام نہ کریں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہماری تمام عبادات کو قبول فرمائے اور آخرت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے طفیل جنت الفردوس نصیب فرمائے، آمین.