لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

2/02/2023

ہر دور میں حکمراں اپنے مجرموں کو قید کرنے کیلئے بد ترین قید خانے بناتے رہے ہیں اور اِس دور کے گوانتاناما بے ‘ ابو غریب جیل ‘ بگرام جیل جیسے نہایت ہی بھیانک اور بد ترین قید خانوں یا جیل خانوں کے نام ہم سب نے سن رکھے ہیں۔ لیکن سائنس و ٹیکنولوجی کے اس دور میں کیا کویٴ ایسا قید خانہ بنا سکتا ہے جو مچھلی کے پیٹ میں ہو اور مچھلی قیدی کو لئے ہوئے ہزاروں میٹر پانی کے نیچے چلی جائے جہان اندھیرا ہی اندھیرا ہو‘ رات کا اندھیرا ‘ سمندر کی گہرائی کا اندھیرا اور پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا اور جہاں نہ ہوا ہو نہ آکسیجن لیکن قیدی پھر بھی صحیح سلامت اور زندہ رہے۔

ایسا قید خانہ صرف ہمارا رب ہی بنا سکتا ہے کیونکہ

أَنَّ اللہ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللہ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا​

اللہ ہر چیز قدرت رکھتا ہے اور یہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے،​

اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو موصل کے علاقے نینویٰ والوں کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی قوم کو شرک و کفر کی ظلمتوں سے نکالنے اور توحید کی روشنی سے روشناش کرانے کی پوری کوشش کی لیکن انہوں نے آپ کی نافرمانی کی اور کفر و عناد پر اڑے رہے۔ جب تبلیغ کرتے کرتے ایک طویل مدت گزر گئی لیکن قوم نہیں سدھری اور اللہ کے عذاب آنے کا وقت قریب آگیا تو یونس علیہ السلام اپنی قوم کی سرکشی کی وجہ سے، اللہ کے حکم کا انتظار کئے بغیر بستی سے نکل گئے اور لوگوں کو فرما گئے کہ تین دن کے ا ندر اُن پر عذاب آ جائے گا۔
حضرت یونس علیہ السلام کو صرف یہ وحی کی گئی تھی کہ تین دن کے اندر بستی والوں پر عذاب آ جائے گا‘ اُنہیں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ اس صورتِ حال میں اُنہیں کیا کرنا ہے۔ انہوں نے اپنے بارے میں اپنے پروردگار کے حکم کا انتظار میں صبر نہیں کیا اور اس جرم میں اللہ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا۔​

لیکن حضرت یونس علیہ السلام کو جوں ہی احساس ہوا کہ اُن سے غلطی ہو گئی ہے ، انہوں نے اپنے آپ کو ملامت کیا اور مچھلی کے پیٹ کے اندھرے قید خانے سے اللہ کو پکارا ۔
فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَلہ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿87﴾ سورة الأنبياء
بالآ خر وه اندھیروں کے اندر سے پکار  اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں اپنی جان پر ظلم کیا۔

نوٹ کیجئے، حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ کی قید خانہ سے رہائی کیلئے توحیدِ باری تعالیٰ کا ہی سہارا لیا اور اللہ کی ہی پاکی بیان کی ۔۔۔۔ کسی نبی ‘ ولی یا اللہ کے کسی اور برگزیدہ بندے کا وسیلہ نہیں لیا۔
حضرت یونس علیہ السلام نے کہا
’ لَّا إِللہ إِلَّا أَنتَ ‘ یعنی ’ لَّا إِلَلہ إِلَّا اللہ ‘ جو کہ کلمہٴ توحید ہے اور کہا ’ سُبْحَانَكَ ‘ یعنی ’ سبحان اللہ ‘ جو کہ الله تعالی کی تسبيح و تنزيہ ہے اور ’ پھر إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ‘ اپنی غلطیوں کا اقرار و اعتراف اِن لفظوں میں کیا کہ ’ بیشک میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں ۔۔۔ اس جملے میں اِن باتوں کا اعتراف ہے کہ اے اللہ میں نے تیرے حکم کا انتظار نہ کرکے تیرا کچھ نہیں بگاڑا اور مجھے اس قید میں ڈال کر تو نے مجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا کیونکہ تو اس سے پاک ہے کہ کسی پر ظلم کرے‘ یہ تو ہم انسان ہی ہیں جو جلد باز ہیں نا شکرے ہیں اور نا صبرے ہیں اور اپنے ہی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔
تب ہمارے غفور الرحیم رب نے نہ صرف اپنے نبی کی دعا قبول کی اور انہیں غم (قید) سے نجات بخشی بلکہ یہ بھی فرما دیا کہ جو بھی مومن بندہ یہ دعا مانگے گا ‘ اُسے نجات ملے گی:​

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ﴿88﴾ سورة الأنبياء​

پس ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں غم سے نجات بخشی، اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں،​

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
ذوالنون ( یعنی یونس علیہ السلام ) کی وہ دعاء جو انہوں نے مچهلی کے پیٹ میں کی تھی (یعنی لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ) جو مسلمان اپنے کسی بهی مقصد کے لئے ان کلمات کے ساتھ دعاء کرے گا اللہ تعالی اس کو قبول فرمادیں گے ۔( رواه الترمذي والحاكم )​

لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ​

یہ دعا بھی ہے اور کلمہٴ توحید بھی ۔ اس کی برکتوں سے ایک طرف حضرت یونس علیہ السلام ایک ایسی قید خانے (مچھلی کی پیٹ ) سے آزاد ہوئے جس کا تصور بھی کوئی انسان نہیں کر سکتا تو دوسری طرف ان کی مشرک قوم بھی شرک کی ظلمتوں سے آزاد ہوئی اور ایک اللہ پہ ایمان لے آئی ایک اللہ کی بندگی میں داخل ہو گئی ۔

انسانی تاریخ میں واحد قوم ہے جنہیں اللہ کا عذاب آنے کے بعد نجات ملی۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے:​

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴿98﴾ سورة يونس​

پس کوئی بستی ایمان نہ ﻻئی کہ ایمان ﻻنا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے۔ جب وه ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لیے زندگی سے فائده اٹھانے (کا موقع) دیا۔
اگر کوئی بندہٴ مومن اللہ کی وحدانیت کے اعلان کے ساتھ ساتھ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہوئے اللہ سے اپنی مغفرت کا طلب گار ہو تو اُسے اس دعا کا سہارا لینا ہوگا۔ کیونکہ اس دعا میں ۔۔۔ کلمہ توحيد ( لا إله إلا أنت ) بھی ہے ……تسبیح و تنزيہ ( سبحانك ) بھی ہے ……اور استغفار ( إنى كنت من الظالمين ) بھی ہے۔​

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ :
میں تمہیں وہ چيز نہ بتاؤں کہ اگرکسی پر کوئی مصیبت اور آزمائش آجائے تو وہ اسے پڑھے تو اسے اس سے نجات مل جا ئے گی وہ یونس علیہ السلام کی دعا ہے ( لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین )۔ مستد رک حاکم اور صحیح الجامع ( 2605 ) میں بھی یہ حدیث ہے ۔​

اس وقت پوری امت گوناگوں مصیبتوں، آزمائشوں اور پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے اور طرح طرح کے عذابات کا شکار ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم سب اس دعا کی معنی مطلب کو سمجھیں اور
شرک و بدعت کے ہر فعل کو ترک کریں۔
ایک اللہ کی بندگی میں آئیں۔
اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھیں۔
اور اِس دعا کو اپنی روزانہ کے معمولات میں شامل کریں تاکہ ہماری بھی بخشش ہو جائے اور اُمت بھی نجات پائے۔
اِس دعا سے قوم کی تقدیر بدل جاتی ہے، قوم پر آیا ہوا عذاب ٹل جاتا ہے۔​