فلسطین ہم شرمندہ ہیں

29/09/2024

جب سے ایمان و عقیدے ہمارے کمزور اور اعمال و افعال ٹھیک نہیں رہے ہیں، تب سے کشمیر ہو، افغانستان، عراق، شام، لیبیا یا فلسطین مطلب ہر جگہ ہم صرف مار ہی کھا رہے ہیں۔ واللہ مسلمان تو اتنے کمزور نہ تھے جتنے کمزور اور بزدل یہ اب یہود و ہنود کی محبت یا ڈر میں بن گئے ہیں۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں جب تک ایمان و عقیدے مسلمانوں کے مضبوط اور اعمال و افعال ان کے ٹھیک تھے تب تک دنیا پر ان کے ڈنکے بجتے تھے اور دنیا کے اکثر حصوں پر ان کی حکمرانی ہوا کرتی تھی لیکن جب سے مسلمان اللہ کو چھوڑ کر یہود و ہنود کے اشاروں پر ناچنے لگے ہیں تب سے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں کا وہ حال ہے کہ جسے دیکھ کر دل پھٹنے لگتا ہے۔ اب تو دنیا کے کسی بھی حصے اور کونے میں مسلمان محفوظ نہیں۔ کشمیر میں مظلوم مسلمان ہنود کے ہاتھوں کٹتے اور مرتے جا رہے ہیں تو ادھر ارض مقدس فلسطین میں یہود مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ اسرائیل نے انبیاء کی سرزمین پر مظلوم فلسطینیوں کو آگ و خون میں نہلا کر ارض مقدس کو لہو لہان کر دیا ہے لیکن یہود و ہنود کے اشاروں پر ناچنے والے مسلم حکمران تاحال خواب غفلت سے بیدار نہیں ہو سکے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کو اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مظلومیت، بے بسی اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی کوئی پرواہ اور کوئی فکر ہے۔
اس کرب و اذیت کی کیفیت میں جہاں روزانہ کی بنیاد پر مظلوم فلسطینی کٹ مر رہے ہیں… بے یار و مددگار بھوک و پیاس سے بے پروا صرف اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنی آنکھوں سے اپنے لوگوں کے جسم کے حصوں کو کٹتے پھٹتے، مسخ اور مسمار ہوتے دیکھتے ہیں. ان کی آنکھوں میں خوف نہیں بلکہ وہ اللہ تعالی کی جنت کے وارث بنیں گے اور وہاں اپنے پیاروں سے ملیں گے.

لیکن ہم نجانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ زبانی کلامی تو باتیں کرتے ہیں لیکن عمل ندارد.
کیا ایسے میں ہمیں کلچرل شو کی آڑ میں 35 روزہ ملکی و غیر ملکی موسیقی، ناچ گانے کے تفریحی شو کراچی آرٹس کونسل کی طرف سے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے اور خیر سگالی کے پیغامات دینے کی ضرورت ہے. ضرورت تو اس وقت مل بیٹھنے کی یہ ہے کہ دنیا بھر کے 57 مسلم ممالک ایک امت مسلمہ بن کر اسرائیل کے سامنے ڈٹ جائیں اور اس خون کی ہولی کو بند کروائیں.
ایران اور لبنان نے کوشش کر کے دیکھ لی اور ان کے سربراہ / کمانڈر دونوں کے حصے شہادت آئی.

عالم کفر تو مسلمانوں کے خلاف آج بھی ایک ہے لیکن مسلمان؟ مسلمان آج بھی فرقوں اور گروہوں میں بھٹکے ہوئے ہیں۔ عراق اور افغانستان کے مسلمانوں کے خلاف اگر کفار ایک ہو سکتے ہیں تو پھر کشمیر، افغانستان، شام، لیبیا اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لئے مسلمان ایک کیوں نہیں ہو سکتے۔
مسلمان تو ایک جسم کی مانند ہے، جسم کے کسی ایک عضو یا حصے پر کوئی درد اور تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہوتا ہے پر افسوس کشمیر اور فلسطین میں برسوں سے مسلمان مولی اور گاجروں کی طرح کٹ رہے ہیں مگر امت مسلمہ کو یہ دکھ اور درد محسوس نہیں ہو رہا۔ یہود اور ہنود کے ہاتھ مظلوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، یہ بات اورحقیقت ازل سے واضح ہے کہ یہود اور ہنود کیا؟۔ پورا عالم کفر مسلمانوں کا کبھی دوست نہیں ہو سکتا۔ جب رب ذوالجلال کھلے الفاظ میں فرما چکے ہیں کہ کافر مسلمانوں کے دوست اور خیرخواہ نہیں ہو سکتے پھر ہم ان ظالموں کو اپنے دوست اور خیرخواہ کیسے سمجھ رہے ہیں؟۔ ایک طرف انبیاء کی پاک سرزمین پر اسرائیل ناجائز قبضہ کر کے برسوں سے ارض مقدس پر مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے دوسری طرف یہی مسلمان اپنے ذاتی، مالی اور سیاسی فوائد کے لئے نہ صرف ناجائز اسرائیل کے ساتھ مراسم بڑھا رہے ہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کو اسے بطور ریاست تسلیم کرنے کے درس بھی دے رہے ہیں۔ جو لوگ فلسطینیوں کے اتنے قتل عام کے بعد بھی اسرائیل کے لئے کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں، ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے۔ کوئی کافر مال، دولت اور شان و شوکت کے حوالے سے کتنا ہی بڑا اور بھاری کیوں نہ ہو ایک کلمہ گو مسلمان کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ فلسطینی مسلمان نہ صرف ہمارے بھائی ہیں بلکہ ارض فلسطین انبیاء کی مبارک سرزمین بھی ہے جس کی حفاظت مسلمانوں پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ اس لئے اہل اسلام میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر غیر مسلم ممالک سے چاہے جس کے جو بھی تعلقات، تیل کی تجارت اور دیگر معاملات ہوں فلسطین کے مسئلے پر ان سب کو اپنے معاملات، مفادات اور کاروبار کو سائیڈ پر رکھ کر فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تاکہ مسلمانوں کی نسل کشی کا یہ رواج ختم ہو سکے بصورت دیگر کفر یہ اژدھا سے پھر کوئی بھی مسلمان بچ نہیں سکے گا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری اُمتِ مسلمہ کو اپنے فرائض و ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور فلسطین و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد و نصرت فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین.