"فتنوں کا زمانہ اور اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات"

07/04/2024

ایک معبود پر یقین اور اس پر کامل اعتماد مذہب اسلام کی بنیاد اور اس کی جڑ ہے۔ نجات اور اللہ کی رضامندی کا حصول اسی سے متعلق ہے۔ اگر اس میں کوئی خامی رہی تو یہ خامی اعلیٰ سطح کی عبادتوں اور شب و روز کی گریہ و زاری کو بے اثر کرسکتی  ہے۔ پختہ عقائد اورایمان و یقین کے بغیر نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دوسری جانی و مالی قربانیاں ضائع اور بے حیثیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایسے اعمال بے جان پتھروں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ایمان کی پختگی، یقین کی درستگی اور عقائد کی مضبوطی کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسے عبادات، معاملات ،اخلاق اور حسن معاشرت سے متعلق تعلیم دی ہے، اسی طرح فتنوں سے بھی آگاہ فرمایا ہے ، اور فتنے کے زمانے سے متعلق بھی بہت ساری روایات ہیں، ہدایات ہیں اور یہ فتنے قربِ قیامت میں اتنے بڑھ جائیں گے جیسے اندھیری رات کی تاریکی ہوتی ہے ، اور ان فتنوں کے مختلف اسباب ہوا کرتے ہیں۔’’فتنہ ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ اس کے مختلف مفہوم ذکر کیے گئے ہیں ، آزمائش کو بھی فتنہ کہتے ہیں، امتحان ، مال و دولت کو فتنہ کہاگیا ہے ، گمراہ کرنا اور گمراہ ہونا اس پر بھی فتنے کا اطلاق ہوتاہے ، کسی چیز کو پسند کرنااور اس پر فریفتہ ہوجانا یہ بھی فتنہ ہے ، لوگوں کی رائے میں،نظریات میں اختلاف یہ بھی فتنہ ہے۔
جس دور سے ہم گزررہے ہیں اس دور میں تقریباً یہ ساری چیزیں پائی جارہی ہیں، اس لیے اسے بھی ’’دورِ فتن ‘‘کہنا بجا ہے اور نہ معلوم کہ آئندہ مزید کیا کیا فتنے رونما ہوں گے ؟ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ایسے مواقع پر رسول اللہ کی تعلیمات کو اپنانے والے بنیں،آپ(ص) کی ہدایات و تعلیمات کےمطابق اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور یہ ہدایات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں جو عملی طور پر ان فتنوں کا شکار ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا: جب تم لوگوں کو اس حال میں دیکھو کہ ان کے آپس کے معاہدات ، معاملات میں دھوکا عام ہوجائے، اور ان میں سے امانت داری کی صفت ختم ہوجائے ، یعنی بددیانت ہوجائیں اور وہ آپس میں اختلاف اور ٹکراؤکی وجہ سے گتھم گتھا ہوجائیں، لڑنے بھڑنے لگ جائیں ،آپ (ص) نے اشارہ کرکے سمجھایا، ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں،یعنی اس طرح باہمی فسادات ہوں ، بات یہاں تک پہنچی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓو فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول !میں آپ پر قربان ہوجاؤں، یہ بتایئے کہ ایسے زمانے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں کیا طرز عمل اختیار کروں ؟ تو رسول اللہ نے اس سلسلے پر پانچ ہدایات دیں۔

پہلی ہدایت: اپنے گھر کو لازم پکڑو:۔پہلی ہدایت یہ دی کہ اپنے گھر کو لازم پکڑو۔ یعنی تم اپنے آپ کو فتنوں سے دور رکھو، گوشہ نشینی اختیار کرو، بلاضرورت گھر سے باہر مت نکلو۔دیکھیے! کس قدر اعلیٰ نصیحت ہے کہ بجائے فضول گھومنے پھرنے ،ادھر اُدھر جانے کے اطمینان سے اپنے گھر میں رہو، تاکہ عملی طور پر کسی فتنے کا شریک کار نہ بنو۔عملاً بھی فتنوں سے اپنے آپ کو دور رکھو۔یہ اصل مقصود ہے۔

دوسری ہدایت:زبان قابو میں رکھو:۔دوسری ہدایت یہ دی کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ یعنی مقصد کی بات کے علاوہ دیگر گفتگو مت کرو، بے مقصد باتوں میں حصہ مت لو،اس میں شامل مت ہوجاؤ، تاکہ تم نہ قولاً کسی فتنے کا سبب بنو، اور نہ عملی طور پر فتنے کا سبب بنو۔ ملاعلی قاریؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ لوگوں کے احوال ، حالات سے متعلق گفتگو ہی مت کرو، گفتگو میں شامل ہی نہ ہوجاؤ، ورنہ وہ تمہیں تکلیف پہنچائیں گے۔اس نصیحت پر بھی غور کریں اور پھر آج کے احوال دیکھیں ، ایسے فتنے کا زمانہ ہے کہ حالات حاضرہ پر گفتگوبھی جان لیوا ثابت ہوجاتی ہے ، بسااوقات لوگوں کے احوال سے متعلق گفتگو خود انسان کے دین و ایمان کے لیے خطرناک ثابت ہوجاتی ہے ، اس فضول گفتگو کی وجہ سے لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوجاتے ہیں، گھروں میں افتراق اور انتشار کا ماحول بن جاتا ہے ، ناراضگیاں ہوجاتی ہیں، لوگوں کےدرمیان بات چیت کرتے کرتے جھگڑے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس لیے فرمایا ان موضوعات پر گفتگو ہی مت کرو۔

تیسری ہدایت:موافق شریعت عمل کرو:۔تیسری ہدایت یہ دی کہ جس بات کو شریعت کے موافق پاؤ اس پر عمل کرو۔شریعت کو مقدم رکھو۔اپنے جذبات کو، ماحول کو، اردگرد کے احوال کو شریعت کے ترازو پر پرکھو ، اگر شریعت کے موافق ہوتو عمل کرو، ورنہ چھوڑدو۔ گویا شریعت کے احکامات اور اصول ہی ایک مسلمان کے لیے ترازو اور معیار ہونے چاہئیں۔باقی سب چیزوں کو ایک جانب رکھ کر شریعت کی پیروی اختیار کرو۔

چوتھی ہدایت:خلاف شریعت امور سے اجتناب کرو:۔چوتھی ہدایت اور نصیحت یہ فرمائی کہ جو بات خلاف شریعت ہو، منکر ہو ،شریعت کے خلاف ہو، اس سے اجتناب کرو۔چاہے اس کا تعلق گفتگو سے ، کسی کے طریقہ کار سے ہو،جذبات سے ہو، مگر ہو شریعت کے خلاف تو اس پر عمل مت کرو، اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔

پانچویں ہدایت:اپنی اصلاح کی فکر کرو:۔پانچویں اور آخری ہدایت یہ دی کہ اپنی اصلاح کی فکر کرو، عام لوگوں کے معاملات کو چھوڑو۔ اپنے آپ کو بچاؤ،اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اپنے آپ کو ہلاک مت کرو۔ یعنی تمہیں معلوم ہو کہ تمہاری باتوں سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا، تمہاری نصیحت پر وہ عمل نہیں کریں گے تواب اپنے بچاؤ کی فکر کرو اور ان کے ساتھ مل کر ہلاکت میں مت پڑو۔

رسول اللہ ﷺنے جیسے عبادات، معاملات ،اخلاق اور حسن معاشرت سے متعلق تعلیم دی ہے، اسی طرح فتنوں سے بھی آگاہ فرمایا ہے ، اور فتنے کے زمانے سے متعلق بھی بہت ساری روایات ہیں، ہدایات ہیں اور یہ فتنے قربِ قیامت میں اتنے بڑھ جائیں گے جیسے اندھیری رات کی تاریکی ہوتی ہے ، اور ان فتنوں کے مختلف اسباب ہوا کرتے ہیں۔’’فتنہ ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ اس کے مختلف مفہوم ذکر کیے گئے ہیں ، آزمائش کو بھی فتنہ کہتے ہیں، امتحان ، مال و دولت کو فتنہ کہا گیا ہے ، گمراہ کرنا اور گمراہ ہونا اس پر بھی فتنے کا اطلاق ہوتاہے ، کسی چیز کو پسند کرنا اور اس پر فریفتہ یعنی عاشق ہوجانا یہ بھی فتنہ ہے ، لوگوں کی رائے میں،نظریات میں اختلاف یہ بھی فتنہ ہے۔

جس دور سے ہم گزررہے ہیں اس دور میں تقریباً یہ ساری چیزیں پائی جارہی ہیں، اس لیے اسے بھی ’’دورِ فتن ‘‘کہنا بجا ہے اور نہ معلوم کہ آئندہ مزید کیا کیا فتنے رونما ہوں گے ؟ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ایسے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے والے بنیں،آپ (ص) کی ہدایات و تعلیمات کےمطابق اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور یہ ہدایات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں جو عملی طور پر ان فتنوں کا شکار ہیں۔

احادیث کی کتب میں ’’کتاب الفتن ‘‘ایک مستقل عنوان ہے ، جس میں دورفتن سے متعلق کثیر روایات موجود ہیں، من جملہ ان روایات کے، ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ، جو مستدرک حاکم ، کنزالعمال سمیت حدیث کی کئی کتب میں منقول ہے ۔وہ ارشاد فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ (ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فتنوں کا ذکر فرمایا: “جب تم لوگوں کو اس حال میں دیکھو کہ ان کے آپس کے معاہدات ، معاملات میں دھوکا عام ہوجائے، اور ان میں سے امانت داری کی صفت ختم ہوجائے ، یعنی بددیانت ہوجائیں اور وہ آپس میں اختلاف اور ٹکراؤ کی وجہ سے گتھم گتھا ہوجائیں، لڑنے بھڑنے لگ جائیں ،آپ (ص) نے اشارہ کرکے سمجھایا، ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں، یعنی اس طرح باہمی فسادات ہوں ، بات یہاں تک پہنچی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓو فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول !میں آپ پر قربان ہو جاؤں، یہ بتایئے کہ ایسے زمانے میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟میں کیا طرز عمل اختیار کروں ؟ تو رسول اللہ نے پانچ جملے ارشاد فرمائے ، وہ پانچ ہدایات درج ذیل ہیں۔

پہلی ہدایت: اپنے گھر کو لازم پکڑو: یعنی تم اپنے آپ کو فتنوں سے دور رکھو، گوشہ نشینی اختیار کرو، بلاضرورت گھر سے باہر مت نکلو۔دیکھیے! کس قدر اعلیٰ نصیحت ہے کہ بجائے فضول گھومنے پھرنے، ادھر اُدھر جانے کے اطمینان سے اپنے گھر میں رہو، تاکہ عملی طور پر کسی فتنے کا شریک کار نہ بنو۔

دوسری ہدایت:زبان قابو میں رکھو: یعنی مقصد کی بات کے علاوہ دیگر گفتگو مت کرو، بے مقصد باتوں میں حصہ مت لو، اس میں شامل مت ہوجاؤ، تاکہ تم نہ قولاً کسی فتنے کا سبب بنو، اور نہ عملی طور پر فتنے کا سبب بنو۔ ملا علی قاریؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ لوگوں کے احوال ، حالات سے متعلق گفتگو ہی مت کرو، گفتگو میں شامل ہی نہ ہو جاؤ، ورنہ وہ تمہیں تکلیف پہنچائیں گے۔

اس نصیحت پر بھی غور کریں اور پھر آج کے احوال دیکھیں ، ایسے فتنے کا زمانہ ہے کہ حالات حاضرہ پر گفتگو بھی جان لیوا ثابت ہو جاتی ہے، بسااوقات لوگوں کے احوال سے متعلق گفتگو خود انسان کے دین و ایمان کے لیے خطرناک ثابت ہوجاتی ہے ، اس فضول گفتگو کی وجہ سے لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوجاتے ہیں، گھروں میں انتشار کا ماحول بن جاتا ہے ، ناراضگیاں ہوجاتی ہیں، لوگوں کےدرمیان بات چیت کرتے کرتے جھگڑے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس لیے فرمایا ان موضوعات پر گفتگو ہی مت کرو۔

تیسری ہدایت: موافق شریعت عمل کرو: یعنی جس بات کو شریعت کے موافق پاؤ اس پر عمل کرو۔ شریعت کو مقدم رکھو۔ اپنے جذبات، ماحول اور اردگرد کے احوال کو شریعت کے ترازو پر پرکھو ، اگر شریعت کے موافق ہو تو عمل کرو، ورنہ چھوڑ دو۔ گویا شریعت کے احکامات اور اصول ہی ایک مسلمان کے لیے ترازو اور معیار ہونے چاہئیں۔باقی سب چیزوں کو ایک جانب رکھ کر شریعت کی پیروی اختیار کرو۔

چوتھی ہدایت:خلاف شریعت امور سے اجتناب کرو: جو بات خلاف شریعت ہو، منکر ہو ،شریعت کے خلاف ہو، اس سے اجتناب کرو۔ چاہے اس کا تعلق گفتگو سے ، کسی کے طریقہ کار سے ہو، جذبات سے ہو، مگر ہو شریعت کے خلاف تو اس پر عمل مت کرو، اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔

پانچویں ہدایت: اپنی اصلاح کی فکر کرو: عام لوگوں کے معاملات کو چھوڑو۔ اپنے آپ کو بچاؤ، اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اپنے آپ کو ہلاک مت کرو۔ یعنی تمہیں معلوم ہو کہ تمہاری باتوں سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا، تمہاری نصیحت پر وہ عمل نہیں کریں گے تواب اپنے بچاؤ کی فکر کرو اور ان کے ساتھ مل کر ہلاکت میں مت پڑو۔

اس لیے اہل علم کا یہ مقولہ ہے کہ کبھی بھی انسان کو شر سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے ،اگرچہ شر پر چلنے والے، شر کا ساتھ دینے والے ،شر میں حصہ ڈالنے والے افراد زیادہ ہی کیوں نہ ہوں، اور کبھی انسان کو خیر کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، اگرچہ اس راستے پر چلنے والے کم ہی کیوں نہ ہوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ارشادات اور قیمتی نصائح سے زیادہ بہتر میری اور آپ کی رہنمائی فتنوں کے دور میں کون کرسکتا ہے ؟ایک ایک نصیحت کو پڑھنے سے ، ٹھنڈے دل سے اس پر غور و فکر کرنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا آج کے حالات رسول اللہ (ص) کی نگاہوں کے سامنے تھے،آپ (ص) کی دوررَس نگاہیں اس ماحول کو اور برپا ہونے والے فتنوں کو دیکھ رہی تھیں، اور آپ اپنی امت کو ایسے دور سے متعلق سنہری نصائح فرما رہے ہیں کہ کیسے امت کے افراد اپنے دین کو ، ایمان کو ، جان کو فتنوں کے زمانے میں محفوظ کرسکیں۔

اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ فتنوں کے دور میں ان نصیحتوں کو اپنے دامن سے باندھ لیں ، ان پر خود بھی عمل کرنے والے بنیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی ان نصیحتوں کی تلقین کرنے اور انہیں بھی سمجھانے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور ہر طرح کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے ۔ (آمین)