ظالم اور مظلوم کی جنگ

12/10/2023

ایک بار پھر فلسطین جنگ آزادی میں مصروف ہے، یہ جنگ اسرائیل کی سرحد غزہ میں ہو رہی ہے، فلسطینی تنظیم حماس کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ آزادی نے اسرائیل کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔

فلسطینیوں کو اگر دنیا کی سب سے بدنصیب قوم کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ پچھلی یعنی بیسویں صدی دنیا بھر میں آزادی کی صدی تھی۔ تقریباً تمام ایشیائی اور افریقی ممالک یورپ کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی حاصل کر چکے تھے۔ اس کے برخلاف سنہ 1949 میں آزاد فلسطین غلام بنایا جا رہا تھا۔ اقوام متحدہ کے سائے تلے دنیا بھر کے یہودی اکٹھا ہو کر فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر کے وہاں صیہونی ریاست قائم کر رہے تھے۔ بے چارے فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑ کر اردن، مصر، شام اور لبنان جیسے پڑوسی عرب ممالک میں پناہ گزیں خیموں میں پناہ لے رہے تھے۔ تب سے اب تک تقریباً 75 برس گزر گئے لیکن فلسطینیوں کی جنگ آزادی جاری ہے۔ افسوس یہ کہ وہ جب جب آزادی کی جنگ لڑتے ہیں، اسرائیل تب تب ان کی بچی کھچی زمین پر قبضہ کر لیتا ہے، جبکہ فلسطینیوں کو موت کا جام پی کر آزادی تو درکنار غلامی کے اندھیروں میں پھر زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ لیکن آزادی کے متوالے فلسطینی پھر بھی ہر قسم کی قربانی دے کر ایک بار پھر اپنی آزادی کی جنگ چھیڑ دیتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

تو کیا سمجھا جائے کہ فلسطینیوں کا خون ناحق رائیگاں جائے گا! ہرگز نہیں۔ اس جنگ کو شروع کرنے سے قبل حماس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو ایک بار پھر یاد دہانی کرا دی جائے کہ مسئلہ فلسطین حل کیے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ اور ساتھ ہی آنے والی نسلوں کو بھی یہ پتہ چل جائے کہ دنیا میں ایک فلسطین قوم بھی ہے جس کو اسرائیل نے امریکہ اور مغربی ممالک کی مدد سے غلام بنا رکھا ہے۔ لیکن فلسطینی قوم آج بھی زندہ و جاوداں ہے اور ایک دن وہ فلسطین کو آزاد کروا کر رہے گی، خواہ اس کے لیے اس کو کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔