شاہین، غوری اور غزنوی سجاوٹ کے لیے نہیں

28/04/2025

اگر بھارت (ہندوستان) کی طرف سے کوئی جارحیت یا حملہ ہوا، تو یہ میزائل دفاع یا حملے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔
یعنی یہ ایک دفاعی اور جنگی حکمتِ عملی کا اظہار ہے، کہ ہمارے میزائل “ڈیکوریشن پیس” نہیں، بلکہ حقیقی استعمال کے لیے تیار ہیں۔

یہ بیان دراصل بھارت کو خبردار کرنے اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت پر اعتماد ظاہر کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔

پاکستان نے اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف بیلسٹک میزائل پروگرامز شروع کیے تھے۔ ان میں سے مشہور میزائل یہ ہیں:

شاہین (Shaheen): تیز رفتار اور درست نشانہ لگانے والا بیلسٹک میزائل۔

غوری (Ghauri): درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا میزائل، جو بھارت کے بڑے شہروں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

غزنوی (Ghaznavi): چھوٹے فاصلے کا مگر تیز رفتار حملہ آور میزائل۔

یہ سب میزائل پاکستان نے بنیادی طور پر بھارت کے مقابلے میں اپنی جوہری اور روایتی دفاعی صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے تیار کیے۔
کیونکہ بھارت نے 1974 اور پھر 1998 میں ایٹمی دھماکے کیے تھے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی 1998 میں ایٹمی تجربات کیے۔

حنیف عباسی کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے. مثلاً کشمیر کا مسئلہ یا سرحدوں پر جھڑپیں وغیرہ۔ پاکستان نے میزائل صرف شو کیس میں رکھنے کے لیے نہیں بنائے، بلکہ اگر بھارت کوئی جارحیت کرے گا تو ان کا جواب دیا جائے گا۔ اگر دشمن پانی بند کرے گا تو ہم ان کی سانسیں بند کر دیں گے”.

یہ ایک طرح سے بھارت کو “ڈیٹرنس” یعنی روک تھام کا پیغام تھا، تاکہ دشمن کو پتہ رہے کہ حملہ مہنگا پڑ سکتا ہے۔