سلف کنٹرول: ایک نایاب وصف

07/05/2025

آج کا انسان جذبات کا قیدی بن چکا ہے۔ تکلیف ہو یا ناکامی، مایوسی ہو یا محرومی، ہم فوراً اپنی حالت دنیا پر ظاہر کر دیتے ہیں۔ ہماری آواز، چہرہ، لباس اور حتیٰ کہ اندازِ گفتگو بھی ہمارے اندرونی اضطراب کی عکاسی کرنے لگتے ہیں۔ خود پر قابو رکھنے کی صلاحیت، جسے سلف کنٹرول کہتے ہیں، رفتہ رفتہ ہماری شخصیت سے محو ہوتی جا رہی ہے۔
ایسے میں تاریخ کی ایک درخشاں مثال ہمیں جھنجھوڑتی ہے — ظہیر الدین بابر کا وہ واقعہ جو صبر، وقار اور حوصلے کی اعلیٰ ترین مثال ہے، آپ کے گوش گزار کر رہی ہوں.

ظہیر الدین بابر کے بارے میں پڑھا تھا کہ اسے ایک بار جسم پر شدید خارش کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ خارش اتنی اذیت ناک تھی کہ اگر کوئی کپڑا بھی اس کے جسم سے چھو جاتا تو وہ شدتِ درد سے کراہ اٹھتا۔ اس کے مخالف، شیبانی خان، کو جب یہ خبر ملی تو وہ بابر کی تکلیف کا “نظارہ” کرنے کے لیے عیادت کے بہانے آ پہنچا۔
بابر کو جب اس کی آمد کی اطلاع ملی تو اُس نے سلف کنٹرول کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے جسم پر مکمل شاہی لباس پہنا، سر پر تاج رکھا اور دربار میں انتہائی وقار اور سکون کے ساتھ آ بیٹھا۔ سارا دن شیبانی خان اس کے ساتھ رہا، کھانے کے اوقات بھی اس کے ساتھ گزارے، مگر بابر نے اپنی اذیت کو نہ آواز میں آنے دیا نہ چہرے پر۔ آخرکار، شیبانی خان مایوس ہو کر محل سے واپس چلا گیا۔
مہمان کے جاتے ہی بابر نے فوری طور پر لباس اتارا۔ درباریوں نے دیکھا کہ اس کا پورا جسم آبلوں سے بھرا ہوا اور سرخ تھا، مگر اس نے تمام دن ضبط کا مظاہرہ کیا اور تکلیف کو خود پر طاری نہ ہونے دیا۔

یہ واقعہ ہمیں ایک عظیم سبق دیتا ہے کہ؛
دنیا ہمارے دکھوں اور تکلیفوں سے بے نیاز ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی پریشانیاں اپنے چہرے تک نہ آنے دیں۔ اگر ہم بیمار ہیں تو بیماری ہمارے حلیے سے ظاہر نہ ہو۔ اگر ہم غریب ہیں تو غربت ہماری زبان یا وضع قطع سے نہ جھلکے۔
ناکامی، خوف، جہالت — یہ سب اگر چہرے، لہجے اور حرکات سے جھلکنے لگیں تو دنیا ہمیں کمزور، حقیر اور غیر مؤثر سمجھنے لگتی ہے۔ زندگی اسی وقت وقار کے ساتھ گزرتی ہے جب ہم خود کو تھامنا سیکھ لیں۔ ورنہ لوگ دوسروں کو جیتے جی دفن کر دیتے ہیں۔

میں نتیجہ کو تھوڑا مزید جامع اور واضح انداز میں پیش کر رہی ہوں تاکہ مضمون کا اختتام پختگی اور اثر کے ساتھ ہو.

ظہیر الدین بابر کا واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسان کی اصل طاقت صرف جسمانی قوت یا الفاظ میں نہیں بلکہ اُس ضبط میں ہے جو وہ دکھ، تکلیف، خوف اور ناکامی کے لمحوں میں ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ دنیا ظاہری تاثر سے رائے قائم کرتی ہے۔ اگر ہم ہر اندرونی زخم کو چہرے پر لے آئیں تو دنیا ہمیں کمزور سمجھ کر نظرانداز کر دے گی۔
سلف کنٹرول محض ایک نفسیاتی ہنر نہیں بلکہ ایک باوقار زندگی گزارنے کا فن ہے۔ یہ ہمیں خودداری، صبر اور وقار عطا کرتا ہے۔ آج کے جذباتی اور شور سے بھرے معاشرے میں اس وصف کو اپنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ہمیں سیکھنا ہوگا کہ دنیا سے داد کے بجائے ضبط سے عزت کمائی جاتی ہے، اور جو شخص خود پر قابو رکھنا سیکھ لے، وہی درحقیقت دنیا پر قابو پانے کے قابل ہوتا ہے۔