زندگی اچھے اخلاق اور بہترین لہجے کی محتاج ہے
29/11/2023
میٹھے بول میں جادو ہے۔ آپ اگر کسی کو کوئی بات سختی کے ساتھ کہتے ہیں تو وہ آپ کی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتا ،وہی بات اگر آپ نرمی سے، پیار کے ساتھ، میٹھے انداز میں کرتے ہیں تو وہ آپ کی بات نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ تعلیم حضرت موسیٰ علیہ سلام اور حضرت ہارون علیہ سلام کے واقعے کی شکل میں موجود ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان دو بھائیوں کو فرعون کو تبلیغ کرنے کے لئے بھیجا تو فرمایا:(ترجمہ) موسٰی اور ہارون تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، وہ سرکش ہوگیا ہے اور اُس کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو کرنی ہےتاکہ وہ نصیحت حاصل کر لے یا وہ ڈر جائے۔
آپ اندازہ لگائیے کہ اللہ تعالیٰ کو تو پتہ تھا کہ فرعون کو موسٰی علیہ سلام اور ہارون علیہ سلام پر ایمان نہیں لانا، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم نے جا کر نرمی کے ساتھ بات کرنی ہے، سخت لہجہ نہیں اپنانا ہے۔ یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ فرعون کون ہے!! اُس کے ساتھ بھی نبیوں کو تعلیم دی جارہی ہے کہ آپ نے نرمی کے ساتھ پیش آنا ہے۔ ہمارے مخاطب تو مسلمان بھائی ہوتے ہیں تو جب کافر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو نرمی کے ساتھ بات کرنے کا حکم دے دیا ہے تو ہمارا مسلمانوں کے ساتھ کیسا رویہ ہونا چاہئے، وہ ہمیں اس آیتِ کریمہ سے سمجھ آرہا ہے کہ اگر ہم لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے لہجے کو نرم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ ہماری بات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ بہترین انسان اپنی میٹھی زبان سے جانا جاتا ہے۔ جن لوگوں کے خیالات اچھے ہوتے ہیں وہ کبھی تنہا نہیں ہوتے۔عبادتیں صرف جائے نماز پر نہیں ہوتی بلکہ یہ میٹھی زبان ، دھیمے لہجے اور ہمدرد و عاجزانہ رویوں سے بھی ہوتی ہیں۔ زبان سے نکلے الفاظ چابیوں کی مانند ہیں اور الفاظ کا صحیح استعمال کر کے ہم لوگوں کےبند منہ یا دل کھول سکتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ’’اپنے دل میں مٹھاس ڈھونڈو، پھر آپکو ہر دل میں مٹھاس ملے گی‘‘۔
زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے انسان کو اچھے اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھے اخلاق اللہ کو بہت پسند ہیں۔ اسلام نے ہمیں یہی تربیت دی ہے۔
ساری دنیا کے شہد میں اتنی مٹھاس نہیں جتنی زبان کے میٹھے بول میں ہے۔ سات سمندر کے پانی میں اتنی کڑواہٹ نہیں جتنی زبان کے ایک کڑوے بول میں ہے۔ایک بول دلوں کو زندہ کر دیتا ہے اور ایک بول دلوں کو ویران کر دیتا ہے، ایک بول گھروں کو آباد کر دیتا ہے اور ایک بول گھروں کے ٹکڑے کر دیتاہے۔تو ہر کسی کے ساتھ مسکرا کے ملنا، خاص طور پر والدین، بیوی بچوں، بہن بھائیوں، رشتہ داروں، دوستوں، ہمسایوں کے ساتھ میٹھے بول کے ساتھ بات چیت کرنا فرض عین ہے۔ گھروں کی خوشحالی کا تعلق اپنے بڑے بڑے مکانوں سے نہیں بلکہ گھروں کی خوشحالی کا تعلق اچھے اخلاق اور میٹھے بول چال سے ہوتا ہے۔ ہر انسان حسن خلق کا محتاج ہے کیونکہ انسان، سخت رویوں سے ٹوٹ جاتا ہے۔ دُنیا میں کوئی بھی چیز اتنی تکلیف دہ نہیں ہوتی جتنا کہ کسی کی زبان سے نکلا ہوا تلخ بول ہوتا ہے۔ انسانی دِل ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ذرا سی سخت آہٹ پہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اور جو دِل سخت رویوں کی بُری مار سے ٹوٹیں، اُن میں تلخی کی چبھن ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ دِلوں کی نرمی بُری نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو نرم دلی کو بھلائی قرار دیا ہے۔ہاں کمی ہمارے رویوں میں اور برداشت و صبر کی صلاحیت میں ہو سکتی ہے جس پہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ آئنسٹائن لکھتے ہیں کہ’’انسان کی اصل قیمت کا اندازہ اس کے ضبط کی ڈگری سے لگایا جاسکتا ہے۔‘‘ہر انسان کو چاہیے دوسرے کا دل توڑنے سے بچے ۔کیونکہ دل توڑنا بڑا گناہ ہے اور اس کا اثر زندگی میں لوٹ کر ضرور آتا ہے۔ جو کسی دوسرے کے دل کو کانٹوں سے زخمی کرتا ہے، وہ چاہے نہ چاہے اسکا اپنا وجود پھول نہیں، ایک کانٹےدار جھاڑی ہی بنتا ہے۔ شرک کے بعد بدترین گناہ ،اللہ کی مخلوق کو تکلیف پہنچانا ہے۔ اللہ کی مخلوق کو تکلیف پہنچانے کی سزا اکثر اِسی دنیا میں مل جاتی ہے۔ خوش اخلاقی ایک ایسا عطر ہے جتنا زیادہ دوسروں پر نچھاور کریں گے اتنی ہی زیادہ خوشبو آپ کے وجود سے آئے گی۔دنیا کا خوبصورت ترین شخص وہ ہے جسے مشکل میں آواز دینا آسان ہو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا آپ دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں تو آپ دنیا کے خوبصورت ترین انسان ہیں۔ آپ آسمان تو نہیں بن سکتے، لیکن کسی کے لیے’’آس ‘‘اور ’’امان‘‘ دونوں بن سکتے ہیں۔اگر آپ کسی کا بھلا نہیں کر سکتے تو کسی کا بُرا کرنے کی بھی کوشش مت کریں،دُنیا کمزور ہے،لیکن دُنیا بنانے والا نہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق دے ۔آمین