رہے نام اللہ کا
12/01/2025
صاحب ایمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ بیماری یا موت کے خیال سے گھبرائے اگرچہ طبیعت پر قابو نہیں ہوتا لیکن اسکے باوجود جتنا ہوسکے صبر کی کوشش کرنی چاہئے خواہ یہ سوچ کر کہ مشقتوں پر اجر حاصل ہوگا اور خواہ تقدیر پر رضا کو حاصل کرنے کے لئے جبکہ مصیبت کیسی ہی ہو تھوڑے وقت کے لئے ہوتی ھے پھر ختم ہوجاتی ھے۔ چنانچہ جو شخص کسی بیماری میں مبتلا رہ چکا ہو وہ صحت کے زمانے میں ان گھڑیوں کو سوچے جن میں وہ پڑا تھا کہ آخر وہ تکلیفیں کہاں ہیں؟ تکلیف زائل ہوچکی ھے اور ثواب لکھا جاچکا ھے، جیسے حرام لذتیں فنا ہوجاتی ہیں اور ان کا گناہ باقی رہ جاتا ھے –
موت سوائے اس کے اور کیا ھے کہ تکلیفیں اتنی بڑھ جائیں جس کے تحمل (برداشت کرنے) سے انسان عاجز ہو جائے پھر وہ تکلیفیں بھی زائل ہوجاتی ہیں لہذا بیمار کو یہ تصور کرنا چاہئے کہ روح کے نکل جانے کے بعد راحت ہوجائے گی تاکہ وہ بیماری جس میں وہ مبتلا ھے ہلکی ہو جائے، جیسے کڑوی دوا پیتے وقت یہ تصور رکھنا کہ اس کے بعد صحت حاصل ہوجائے گی اور جسم کے سڑ گل جانے کو سوچ کر بھی گھبرانے کے کوئی معنی نہیں کیونکہ یہ سڑنا اور گلنا سواری (جسد خاکی) کو پیش آئے گا سوار تو ( باقی رھے گا ) پھر جنت میں جائے گا یا جہنم میں- لہذا اس بات کا پورا اہتمام کرنا چاہئے کہ رکاوٹوں کے پیش آنے سے پہلے ہی فضائل اور درجات میں اضافہ کرلے کیونکہ نیک بخت وہی ھے جس نے عافیت زمانے کی قدر کی اور عافیت کے وقت میں افضل سے افضل عمل کو حاصل کرتا رھے، خوب سمجھ لو کہ یہاں جس قدر فضائل حاصل کئے جائیں گے جنت میں اسی کے بقدر مراتب حاصل ہوں گے، جبکہ عمر تھوڑی ھے اس لئے جلد از جلد فضیلتوں کے حصول میں لگ جانا چاہئے ! کون جانے کس قدر طویل ہوگی یہاں کی مشقتوں کے بدلے میں وہاں کی راحت !!! کیا خوب ہوگی یہاں کے غم زدوں کے لئے وہاں کی فرحت اور کس قدر زیادہ ہوگی یہاں کے مبتلا آلام کے لئے وہاں کی مسرت- جب کبھی خیال آجاتا ھے کہ جنت میں ہر لذت ہمیشہ رھے گی نہ اس میں کوئی کدورت شامل ہوگی تو پھر ہر مصیبت اور سختی ہلکی معلوم ہونے لگتی ھے، اللہ تعالی ایک مسلمان کے ساتھ کیسا معاملہ فرماتے ہیں اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ھے کہ کسی شہر میں دو آدمی بستر مرگ پر مرنے کے قریب تھے ان میں سے ایک مسلمان تھا اور ایک یہودی تھا، اس یہودی کے دل میں مچھلی کھانے کی خواہش پیدا ہوئی اور مچھلی قریب میں کہیں ملتی نہی تھی. اور اس مسلمان کے دل میں روغن زیتون کھانے کی خواہش پیدا ہوئی تو اللہ تعالی نے دو فرشتوں کو بلایا، ایک فرشتے سے فرمایا کہ فلاں شہر میں ایک یہودی مرنے کے قریب ھے اور اس کا دل مچھلی کھانے کو چاہ رہا ھے تم ایسا کرو کے ایک مچھلی لیکر اسکے گھر کے تالاب میں ڈال دو تاکہ وہ مچھلی کھا کر اپنی خواہش پوری کرلے۔ دوسرے فرشتے سے فرمایا کہ فلاں شہر میں ایک مسلمان مرنے کے قریب ھے اور اس کا روغن زیتون پینے کو دل چاہ رہا ھے اور روغن زیتون اسکی الماری کے اندر موجود ھے تم وہاں جاوّ اور اسکا روغن زیتون نکال کر ضائع کردو تاکہ وہ اپنی خواہش پوری نہ کرسکے-
چنانچہ دونوں فرشتے اپنے اپنے مشن پر چلے گئے، راستے میں ان دونوں فرشتوں کی ملاقات ہوگئی دونوں نے ایک دوسرے سے پوچھا تم کس کام پر جارھے ہو ایک فرشتے نے کہا میں فلاں یہودی کو مچھلی کھلانے جا رہا ہوں. دوسرے فرشتے نے کہا میں ایک مسلمان کا روغن زیتون ضائع کرنے جا رہا ہوں، دونوں کو تعجب ہوا کہ ہم دونوں کو دو متضاد کاموں کا حکم کیوں دیا گیا؟ لیکن یہ اللہ تعالی کا حکم تھا اس لئے دونوں نے جاکر اپنا کام پورا کیا، جب واپس آئے تو دونوں نے عرض کیا یا اللہ ! ہم نے آپکے حکم کی تعمیل تو کرلی لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ ایک مسلمان جو آپکے حکم کو ماننے والا تھا اسکے پاس روغن زیتون موجود تھا اسکے باوجود آپ نے اس کا روغن زیتون ضائع کرادیا اور دوسری طرف ایک یہودی تھا اور اسکے پاس مچھلی موجود بھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود آپ نے اس کو مچھلی کھلا دی اسلئے ہماری سمجھ میں یہ قصہ نہیں آیا؟ اللہ تعالی نے جواب میں فرمایا کہ تمہیں ہمارے کاموں کی حکمت کا پتہ نہیں، بات دراصل یہ ھے کہ میرا معاملہ کافروں کے ساتھ کچھ اور ھے اور مسلمانوں کیساتھ کچھ اور ھے؟ کافروں کیساتھ معاملہ یہ ھے کہ کافر بھی دنیا میں نیک عمل کرتے ہیں کبھی صدقہ خیرات کی شکل میں اور کبھی کسی فلاحی کاموں میں یا کسی فقیر کی مدد کرکے، اسکے نیک اعمال اگرچہ آخرت میں ہمارے ہاں مقبول نہیں ہیں اسلئے ہم انکے نیک اعمال کا حساب دنیا میں ہی چکا دیتے ہیں تاکہ یہ آخرت میں جب ہمارے پاس آئیں تو انکے نیک اعمال کا حساب برابر ہو چکا ہو اور ہمارے ذمہ انکی کسی نیکی کا بدلہ باقی نہ ہو۔ دوسری طرف مسلمانوں کے ساتھ ہمارا معاملہ جدا ھے وہ یہ کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے گناہوں کا حساب دنیا کے اندر ہی چکا دیں تاکہ جب یہ ہمارے پاس آئیں تو گناہوں سے پاک صاف ہوکر آئیں-
لہذا یہودی نے جتنے نیک اعمال کئے تھے اسکا بدلہ ہم نے اسے دنیا میں ہی دے دیا اسکی ایک نیکی کا بدلہ باقی تھا اور اب وہ ہمارے پاس آرہا تھا اسکی مچھلی کھانے کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے اسکی نیکی کا بدلہ پورا کر دیا لہذا اسکا نیکی کا حساب چکتا ہوا، اور اس مسلمان کی بیماری کے دوران باقی سارے گناہ تو معاف ہوچکے تھے البتہ ایک گناہ اسکے سر پر باقی تھا اور اب یہ ہمارے پاس آنے والا تھا اگر اس حالت میں ہمارے پاس آجاتا تو اسکا یہ گناہ اسکے نامہ اعمال میں ہوتا اسلئے ہم نے یہ چاہا کہ اس کو گناہوں سے پاک صاف کردیں، تمام امور میں اللہ تعالی پر بھروسہ کرنا اور اللہ تعالی کے کاموں پر راضی رہنا اس سے ہر وقت اچھا گمان رکھنا، مصیبت ٹلنے کا انتظار کرنا یہ سب چیزیں ایمانی صفات میں سے ہیں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے فرماہا ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل ” تو اللہ تعالی نے آگ کو گلزار بنا دیا- حضور کریم ؐاور انکے اصحاب کو جب قریش نے دھمکی دی تو انہوں نے فرمایا ” حسبنا اللہ و نعم الوکیل ” اللہ تعالی نے اپنی مدد اور نصرت کیساتھ انہیں کامیاب فرمایا- اسی لئے قرآن کریم میں اہل ایمان کو اللہ تعالی پر اعتماد اور توکل کا حکم دیا گیا ھے !