دیتی رہے گی درس شہادت حسین کی
10/08/2022
حضرت امام حسینؓ نے جو قربانی دی اس قربانی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے۔۔۔ اس کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ حضرت امام حسینؓ کے روبرو یہ مقاصد تھے: امر بالمعروف، نہی عن المنکر، احیائے سنت، اور اصلاح امت، اس طرح کہ مخلوق خدا پر رحم و کرم اور ان کی سیاسی اقتصادی حالت کو بہتر بنانا تاکہ متوازن معاشرہ قائم ہو سکے۔ انہی کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ جبر اور عوام کی عدم شرکت کے باوجود لوگوں کو اپنے نفس پر اعتماد اور اپنی شخصیت پر یقین قائم ہے۔ انہوں نے عزت و شرافت کے حقوق سے آگاہ کیا۔ جس جگہ حریت فکر کی تحریک کو جبر کے ذریعے دبایا جا رہا ہے وہ زمین کربلا ہے۔ یزید ایک شخص نہیں۔ یہ قیامت تک کے لئے ایک طاقتور باطل کا نمائندہ ہے۔ حسینؓ خون میں دوڑنے والی ایک غیرت ہے۔ ایک ادارہ ہے۔ حسینؓ جانتے تھے کہ مجھے شہید ہونا ہے۔ حضرت حسینؓ اس لئے گئے تاکہ حق کا علم بلند ہو۔ حسینؓ وہ مینار ہے جو اتنی بلندی پر قائم ہے کہ قیامت تک امت کے لئے روشنی دیتا رہے گا۔ حق و باطل کی جنگ ہمیشہ جاری رہی ہے اور آج بھی جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ غدار ہر جگہ ہیں، شام اور کوفہ ہر جگہ ہیں۔
امام حسین ؓ کا علم حق بلند کرے کا مقصد ایک ایسے نظام کو ختم کرنا تھا جو باطل پر مبنی تھا۔ وہی نظام حکومت چل سکتا ہے جس کی بنیاد عدالت ہو۔ جتنے بھی انبیاء آئے سب کے سب نظام عدل قائم کرنے آئے۔ امام حسینؓ کا مدینے سے کربلا کی طرف کوچ کرنے کا مقصد بھی عدل قائم کرنا تھا۔ انہوں نے حق و صداقت کی تاریخ رقم کی۔ اسلام نے جو نظام حکومت دیا وہ انتخابی نظام تھا جو عامتہ المسلمین کی مرضی سے طے پاتا تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں تم پر مقرر کیا گیا ہوں، مسلط نہیں کیا گیا۔ اس دور میں حکومت پر تنقید کی آزادی تھی۔ حضرت عمرؓ کا چادروں والا مشہور واقعہ آپ نے پڑھا ہو گا۔ اس سے اسلام کی سپرٹ کا پتہ چلتا ہے۔ بیت المال پر قوم کا حق تسلیم کیا جاتا تھا۔ یعنی اس کا استعمال قوم کی مرضی سے ہوتا تھا۔ ذاتی تصرف نہیں تھا۔ حضرت علیؓ کے دور میں مکمل جمہوریت تھی۔ حضرت علیؓ کے بعد جو دور آیا، اس میں انتخابی حکومت سے وراثتی ہو گئی۔ بیت المال کا سیاسی استعمال ہونے لگا۔ پہلے بیعت سے اقتدار ملتا ہے۔ پھر اقتدار سے بیعت ملنے لگا۔ یزید کی نامزدگی ہوئی۔ پھر سارے حکومتی وسائل عوام کی مرضی کو ہموار کرنے کے لئے استعمال کئے گئے۔ حق تنقید سلب کر لیا گیا۔ حجر بن عدی کا واقعہ آتا ہے کہ حضرت علیؓ کی تعریف کرنے پر سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ کسی کو تنقید کی اجازت نہ رہی۔ جو حکومت پر تنقید کرتا تھا اسے انتشار پسند کہا جاتا تھا۔ ہر آمر اپوزیشن پر انتشار کا الزام لگاتا ہے۔ یزید کے دور میں بیت المال کا سیاسی استعمال ہونے لگا۔ تاریخ میں آتا ہے کہ یزید کی بیعت پر راضی کرنے کے لئے ایک ایک لاکھ درہم کی رشوت دی گئی۔
خلافت راشدہ میں قانون کی حکمرانی تھی مگر بعد میں فرد واحد کی حکمرانی ہو گئی۔ دور یزید کے اندر صرف سانحہ کربلا پیش نہیں آتا بلکہ تین واقعات آتے ہیں۔ ایک سانحہ کربلا کا، دوسرا واقعہ مدینے کے اندر یزید کے خلاف تحریک اٹھی۔ اس تحریک کو دبانے کے لئے یہاں تک نوبت آئی کہ روضۂ رسول تک پتھر گرے۔ اس جنگ میں یزید نے 12ہزار فوج بھیجی۔ اس میں 700معززین مارے گئے اور دس ہزار عوام قتل کئے گئے۔ تیسرا واقعہ مکہ میں ہوا جب لوگوں نے بغاوت کی۔ اس کو کچلنے کے لئے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی گئی۔ تاریخ میں آتا ہے کہ کعبہ کی ایک دیوار سنگ باری کی وجہ سے شکستہ ہو گئی۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہوس اقتدار کی خاطر خانہ کعبہ کی پرواہ نہ کی گئی۔
اسلام میں خلیفہ یا حکمران عوام کا خادم ہوتا ہے۔ رہنما اصول قرآن مجید میں درج ہیں۔ ہمارے سامنے رسول کریمؐ کے واضح احکامات ہیں۔ یزید نے ان احکامات کی خلاف ورزی کی۔ اس نے آئین اسلام کی خلاف ورزی کی۔ یزید کے اس عمل کی وجہ سے خلافت، ملوکیت میں بدل گئی۔ حضرت امام حسینؓ نے یہ درس دیا کہ اگر اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہو تو تمہاری جان اس پر زیادہ قیمتی نہیں۔
حضرت امام حسینؓ نے کربلا کے میدان میں حق و صداقت کی جہاں ایک تاریخ رقم کی وہاں انہوں نے اسلام کی بقا کی ضمانت بھی اپنے لہو سے دی۔ ہم نے جس نظریے کے تحت ملک حاصل کیا، اس نظریے کو زندہ کریں، نوجوان نسل کو اس نظریے سے اچھی طرح آگاہ کریں اور اس کی حقانیت کا یقین دلائیں تو یقیناً ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ان اشعار پر بات ختم کرتی ہوں …؎
دیتی رہے گی درس شہادت حسینؓ کی
آزادیِ حیات کا یہ سرمدی اصول
کٹ جائے چڑھ کے سر ترا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول