دنیا کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں میں جا بیٹھنا اور تسبیح ہلانا عبادت نہیں ہے
14/12/2024
۔ بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا حقیقی عبادت ہے.”
(سید ابو الا علی مودودی رحمت اللہ)
وہ لوگ جو انسان کو چھوڑ کر یا انسان سے منہ موڑ کر خدا کی تلاش کرتے ہیں، کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب انسانوں کے تذکرے اور انسانوں کے انجام کے بارے میں آگاہی دینے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت بلند مقام عطا فرمایا۔ انسان کے آگے فرشتوں کو جھکا دیا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا گھر انسانوں کے ذریعے بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے انسانی زبان اور اللہ تعالیٰ کی یاد کے لیے انسانی دل درکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خوشی انسان کی خدمت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’انسانوں کی خدمت کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاو، سائل کو جھڑکی نہ دو، یتیم کا مال ہرگز نہ کھاو، کیے ہوئے وعدے پورے کرو، نرم خو اور نرم دل ہو جاو، زمین پر اکڑ اکڑ کر مت چلو‘‘۔ یہ تمام احکام اللہ تعالیٰ کے ہیں اور انسان کی خدمت کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا انسان کو خوش رکھنے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ماں باپ کے آگے اُف نہ کرو، ان کو جھڑکی نہ دو، ان سے نرم الفاظ میں بات کرو، وہ جب بڑھاپے میں پہنچیں تو ان کے لیے رحمت کے بازو پھیلا دو‘‘۔ خدمت ماں باپ کی اور خوشی اللہ تعالیٰ کی، یہی بات غور طلب ہے کہ اللہ کہاں ہے؟ سجدے میں اللہ ملتا ہے لیکن مسکین کو کھانا کھلانے میں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ انسان نے جس مقام پر انسانوں کو چھوڑ کر خدا سے محبت کا دعویٰ کیا، وہ اکثر غلط نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ، اپنے کلمے کے ساتھ انسان کا اسم بلند کیا۔ اپنا کلام انسانی قلب پر نازل فرمایا اور اپنے دین کی تبلیغ انسانوں کے ذریعے کی، انسانوں کے لیے…
مدد کریں تو یہ نیکی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ بات بہت ہی اہم ہے کہ ہمیں جاننا چاہیے کہ جس مال سے ہم غریب کی مدد کر رہے ہیں وہ مال حرام کی کمائی نہ ہو، کیونکہ حرام کی کمائی کہیں نہ کہیں سے ظلم یا دھوکے کے ذریعے آتی ہے۔ لہٰذا غریب کی مدد کی نیکی ایک بدی کو جنم دے سکتی ہے۔ اسی طرح رشوت کی دولت سے اگر حج کیا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ہی نہیں اس کے نظام کے خلاف بغاوت ہے۔ لازم یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کے قانون کے مطابق کمائی ہوئی دولت سے غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کی خدمت کرے۔ مسکین یا بھوکا کوئی بھی انسان ہو، اسے کھانا کھلانے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ یہاں دین کی کوئی قید نہیں۔ بھوکے آدمی کو کھانا کھلانا ہے، لیکن کھانا کھلانے والا انسان احتیاط کرے اور غور کرے کہ اس نے یہ کھانا کہاں سے حاصل کیا۔ ناجائز کمائیوں سے بنے ہوئے محلات پر لکھ دینا کہ یہ اللہ کے فضل سے بنا ہے، ایک ظلم ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں انسانوں کے تذکرے ہیں۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے اپنے ارشاد کے مطابق وہ ہمارا ذکر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ساری کائنات کی وسیع و عریض تخلیق میں سب سے اشرف مخلوق انسان ہے۔ انسان کا مقام یہی ہے کہ اسے ’’احسنِ تقویم‘‘ بنایا گیا۔ اگر کسی انسان کا دل توڑ دیا جائے تو اللہ ناراض ہو جاتا ہے، کسی انسان کو حق سے محروم کرنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ جو زمانہ اللہ کی منشا کے مطابق ہوتا ہے وہ انسان کی سرفرازی کا دور ہوتا ہے، انسان کے حقوق کے تحفظ کا دور ہوتا ہے، انسان کی عزتِ نفس کے لحاظ کا زمانہ ہوتا ہے۔ انسانیت کی عزت ہی خدا کے احکام کی بجا آوری میں ہے۔ نیکی دراصل انسانوں کے ساتھ نیک سلوک کا نام ہے، خالی نیکی تو کوئی نیکی نہیں۔ ہم نیکی انسان کے ساتھ کرتے ہیں، انعام اللہ تعالیٰ سے ملتا ہے۔ ہم غریب کی خدمت کرتے ہیں، سخاوت کی منزل پاتے ہیں۔ غریب انسان ایک لحاظ سے محسن ہے کہ وہ سخی ہونے کا موقع دیتا ہے۔ اگر اللہ کی طرف رجوع ہو تو لوگ غریبوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی خدمت کریں، ان کی مدد کریں۔