دعا عین تقاضا زندگی ہے
27/03/2024
عبادت کی ایک افضل شکل دعا ہے۔ عبد کی زیر دستی اور معبود کی بالادستی کا برملا اقرار و اظہار ہے۔ گود سے لے کر گور تک زندگی کے ہر موڑ پر دعا کرنا، دعا دینا، دعا لینا، معمولاتِ زندگی میں معمول کی بات ہے۔ ہر دم بلکہ تادم کا وظیفہ ہے۔ ہر گھڑی چھوٹی ہو یا بڑی ہر تدبیر سے پہلے خیر و برکت کے لیے پہلے دعا ہے۔
دعا ایمان و ایقان کا تقاضا ہے۔ قبولیت میں دیر سویر دونوں روا ہے۔ تاثیر میں اکسیر ہے مگر تاخیر دیکھ کر دل شکستہ ہو کر دعا سے بیزار اور فرار سخت گناہ ہے۔ بغیر کسی واسطے اللہ اور بندے کے درمیان صیغہ راز میں ون ٹو ون شرف ملاقات کا ذریعہ ہے۔ موجب تبدیلیٔ قدر و قضا ہے۔ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے۔
مسلمان ہر کام کا آغاز اللہ کے نام سے کرتا ہے۔ بسم اللہ اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ اپنی محنت میں برکت اور شیطان کی حرکت سے بچنے کے لیے اللہ کی حفاظت اور پناہ مانگتا ہے۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب بندہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ بھی اپنے بندے کی طرف توجہ فرماتا ہے۔ اللہ کی نگاہ رحم و کرم کو جو چیز ہماری طرف مائل کرتی ہے وہ ہمارا اس کی طرف ہاتھ پھیلانا اور اس سے گڑگڑا کر دعائیں مانگنا ہے۔ دعا سے متعلق قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اے نبیؐ میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، تو میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ (البقرہ 186)
وہ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ (البقرہ:284)
یہ ہیں آئین قرآن کی سیکڑوں دفعات میں سے چند دفعات جو بطور دلیل دعویٰ پیش کی گئی ہیں۔ قرآن کی رو سے اللہ اپنے بندے کے قریب ہے۔ وہ بندے کی دعا سنتا ہے اور جواب دیتا ہے۔ دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے۔ اللہ سے دعا مانگتے رہو کا حکم ہے۔
یہ قاعدہ، کلیہ اور اصول کی بات ہے جو صرف اللہ کی ذات تک مختص ہے۔ قرآنی ارشادات کی روشنی میں رسول خدا کا یہ قول ’’قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتا مگر دعا‘‘ برحق نظر آتا ہے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتا۔ صرف اسلام کے تصور خدا کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور یقین محکم رکھنے کی ضرورت ہے۔
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول قرآن
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
المختصر درد و سوز میں ڈوبی ہوئی صدا مقام احسان پر پہنچی ہوئی بندے کی دعا شاہد یا مشہود بن کر اللہ کے حضور گڑگڑا کر یا چپکے چپکے یا دل ہی دل میں رجوع کرتا ہے تو اللہ کی رحمت جوش میں آجاتی ہے اور ارحم الراحمین اس کی عاجزی، انکساری، جذبۂ بندگی کو دیکھ کر اس کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نواز دیتا ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ دعا، تقدیر بدل دیتی ہے یہ ہے دعا کی شان و عظمت۔ فضیلت و اہمیت، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہر دم دعا کو ورد زبان اور رطب اللسان رکھیں اور یہ پختہ یقین رکھیں کہ رب کریم ہماری دعا کو ضرور بالضرور پوری کرے گا کیونکہ یہ اس کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے۔ ذوق یقین کی ضرورت ہے۔
عبادت اگر صورت ہے تو دعا اس کی سیرت، عبادت اگر جسم ہے تو دعا اس کی روح، عبادت اگر پھول ہے تو دعا اس کی خوشبو جو اہمیت سیرت، روح اور خوشبو کی ہے وہی فضیلت اور اہمیت دعا کی ہے جو عبادت، دعا سے عبارت نہیں، وہ ایسی ہے جیسے جسم بغیر روح کے، پھول بغیر خوشبو کے۔ اللہ تو مائل بہ کرم ہے۔ ہمیں خلوص دل سے سائل بننے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظرِ فضل و کرم تو چشم براہ ہے۔ ہمیں دست بدعا ہونے کی ضرورت ہے۔