خوشبو
09/12/2024
یہ دنیا ریلوے اسٹیشن کی طرح ہے جہاں کوئی مسافر آرہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں کسی کو بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہنا، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اگر چہ یہاں سے چلے جاتے ہیں مگر ان کے افکار، ان کی باتیں اور ان کے خیالات ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ یہ لوگ خوشبو کی طرح ہوتے ہیں جو نظر تو نہیں آتے مگر دِل و دماغ کو معطر ضرور کرتے ہیں۔
یہ صاحب جمال اور اعلیٰ اوصاف کے حامل انسان اللہ تعالیٰ کے دوست اور انسانیت کے رہنما ہوتے ہیں. جو اللہ تعالیٰ کے اذن سے کسی مقررہ مدت کے لیے اپنا بہترین کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو فیضیاب کرتے ہیں.
ہمارے سامنے ان معتبر شخصیات کی تعلیمات کے بہت سے قصے اور واقعات مختلف کتابوں کے ذریعے ہماری زندگی کے ہر پہلو کی آبیاری کرتے نظر آتے ہیں.
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس طرح انسان کی زندگی کے تمام شعبہ جات سے متعلق آداب تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اسی طرح اللہ والوں، بزرگانِ دین اور علماء کے پاس جانے کے بھی بہت سے آداب احادیث میں آئے ہیں۔ سننِ نسائی جلد دوم میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’ہم لوگ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، اس دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت سفید تھے، اس کے بال بہت سیاہ رنگ کے تھے، معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ سفر سے آیا ہے اور ہم میں سے کوئی شخص اس کو نہیں پہچانتا تھا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آمنے سامنے بیٹھا اور اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے، یعنی ادب سے جس طریقے سے کسی استاد کے سامنے کوئی شاگرد بیٹھتا ہے. پھر اس نے اسلام ، ایمان ، احسان اور قیامت کے بارے میں سوالات کیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تین روز بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! تم واقف ہو وہ دریافت کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو ہی علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ جبرئیل ؑ تھے جو تم کو دین سکھانے آئے تھے ۔‘‘ (سنن نسائی، جلد دوم ،باب نعت الاسلام،حدیث ۴۹۹۶)
اس سے معلوم ہوا کہ اہل اللہ ، بزرگان دین اور اساتذہ وغیرہ کے سامنے با ادب ہو کر بیٹھنا چاہیے۔ اسی طرح علما ء نے ان حضرات کی صحبت میں جانے کے اور بھی بہت سے آداب ذکر کیے ہیں۔ جیسے: اللہ والوں کی مجلس میں خلوصِ دل سے جانا کہ کوئی دنیاوی غرض نہ ہو۔ ان کے ادب و احترام کی حتیٰ الوسع کوشش کرنا، چستی کے ساتھ تازہ دم ہو کر بیٹھنا، کوشش کر کے سامنے اور قریب بیٹھنا، جیسا کہ درج بالا حدیث سے بھی ثابت ہے، ان کے پاس جانے سے قبل توبہ و استغفار کے ذریعے قلب کو صاف کرلینا کہ عینک لگانے والا انسان جب اپنی قیمتی و عزیز چیز کو دیکھنا چاہتا ہے تو پہلے عینک صاف کرتا ہے، تاکہ عینک کا گرد و غبار دیکھنے میں رکاوٹ نہ بنے۔ اسی طرح اگر اللہ والوں یا بزرگانِ دین کی مجلس میں جاکر ان کو دیکھنے اور اپنی اصلاح کرانے سے قبل توبہ و استغفارکے ذریعے اپنے دل کی عینک کو صاف کر لیا جائے تو دل پر بغیر کسی رکاوٹ کے ہدایت کے انوار و برکات نازل ہوں گی اور بیمار روح شفا پائے گی۔
حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے:
ان سے ملنے کی ہے یہی اِک راہ
ملنے والوں سے راہ پیدا کر
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء ہے:
’’اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ۔‘‘ (رواہ الترمذی )
ترجمہ: ’’ اے اللہ! میں آپ سے آپ کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور اُس کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو آپ سے محبت کرتا ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ ان سطور پر مجھے اور ہر پڑھنے والے کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔