جہاں سلطنتیں زوال پذیر ہوتی ہیں اور مومنین عروج پر ہوتے ہیں۔ غزہ اور عسقلان کے لیے ابدی جدوجہد

09/04/2025

(از قلم ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ)

انسانوں کی تاریخ میں غزہ اور عسقلان کے علاقے بالکل بنیادی علاقے ہیں۔ انسان نے اسی “الهلال الخصيب” یا fertile crescent سے ۱۴ ہزار سال قبل تہذیب کا آغاز کیا۔ انسان کے آثار تو اس علاقے میں کوئی ۵ لاکھ سال پرانے ہیں۔
‏سامی نسل کا یہاں آنا کوئی 6 ہزار سال قبل کا واقعہ ہے! القدس کا شہر اولین جبوسیوں نے ساڑے 4 ہزار سال قبل آباد کیا۔ تقریبا 4 ہزار 8 سو سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام جب یہاں ہجرت کر کے آئے تو عدنانی عربوں اور بنی اسرائیل کا آغاز ہوا۔ اس دور سے قبل یہاں باقاعدہ کوئی سلطنت نہیں تھی بلکہ دو سو کے لگ بھگ کنعانی شہر اور دیہات تھے! نابلس، عسقلان، عکا، بیسان، حیفا، الخلیل، اسدود، بئیر سبا وغیرہ اسے دور کے آباد کیے شہر ہیں۔
‏اسرائیلی اس علاقے کی بجائے مصر میں رہے جہاں اصلاً حضرت یعقوبؑ ہجرت کر گئے تھے۔ تب سے کوئی ساڑھے بارہ سو سال قبل مسیح تک یہ وہیں رہے پھر حضرت موسیٰ نے خدا کے حکم سے انہیں فلسطین پر قابض کیا! غزہ اور عسقلان پر جس پہلی باقاعدہ ریاست کا تسلط ہوا وہ مشہور مصری اٹھارویں خاندان کے فراعنہ کی تھی۔
‏جب بنی اسرائیل مصر سے یہاں داخل ہوئے تو ادھر ان لوگون کا تمدن تھا جنہوں نے اصلاً یورپ میں تہذیب کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ إقريطشی تھے جو کئی صدیاں یہاں رہ کر کنعانیوں میں گھل مل گئے۔ یہی لوگ پھر فلسطی کہلائے جہان سے فلسطین کا آغاز ہوا!

‏یہاں دنیا کی ہر طاقت ور قوم کی حکومت رہی ہے۔ مصریوں کے بعد حضرت سلیمانؑ اور داؤدؑ کی سلطنتیں جنکی کوئی نظیر نہیں، عشوریوں کی انسانی تاریخ کی پہلی عظیم الشان سلطنت، بابلیوں، شہنشاہ كورشِ اعظم کی غیر معمولی اخمینی ایرانی سلطنت، سکندر اعظم، رومیوں، بازنطینیوں اور ساسانیوں سے ہوتے یہ علاقہ مسلمانوں کے ہاتھ آیا!
‏4 ہزار سال کی اس تاریخ 24 سے قریب اقوام کا اس پر تسلط رہا ۔ اللہ تعالیٰ نے شاید ہی کسی علاقے کو اس قدر لوگوں کے درمیان پھیرا ہو! یہ حقیقتاً خدا کی کبریائی اور اسکی عظمت کی علامت ہے۔ اب کی ناجائز اسرائیلی ریاست کوئی 70 سال کا قصہ ہے کوئی ایک صدی کا واقعہ بھی نہیں!
‏بسا اوقات ان ہزاروں سالوں میں ایسا ہوا کہ ہزاروں سال سے قائم مضبوط سلطنتیں دہائیوں کیا برسوں میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہو گئیں۔ زیادہ دور کیا جانا، روم پر بھی زوال آ سکتا ہے؛ یہ سوال تو آج تک سوچونے والے دماغوں کو پریشان رکھتا ہے۔ مگر خدا نے اس سلطنت کو عبرت کا نشان بنا کر ختم کر دیا، عربوں کو ادھر عزت دی پھر انہی کی باغی اولادوں سے علاقہ چھین کر ان غلاموں کے ہاتھ میں دے دیا جنکے مقابلے پر عربوں کو اپنے نسب کا مان تھا۔ یہودیوں کو تو کیا مان ہونا!
بخت نصر جب یہودیوں کو غلام بنا کر لے گیا تو کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ بابلیوں کو بھی شکست ہو سکتی ہے۔ مگر اللہ نے ایسا کیا کہ ہزاروں میل دور مادرا کی عظیم ریاست کے شمال سے اُٹھنے والے سائرسِ اعظم نے 12 سال کے اندر 3 بڑی سلطنتوں کو شکست دے کر بابلیوں کو ایسا ختم کیا کہ پھر وہ سر نہ اُٹھا سکے اور تاریخ میں انکا بس حوالہ ہی رہ گیا! پھر خود یہ اناطولیہ اور مصر سے ہندوستان تک پھیلی اس اخمینی سلطنت کو ایسا زوال آیا کہ اللہ نے 5 سالوں کے اندر ہی اسے سکندرِ اعظم کی جھولی میں ڈلوا دیا!
‏سکندر کی اُٹھان کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے اسے بھی زوال ہو گا؟ مگر اسکی سلطنت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئی۔
‏آج دو ہزار سال بعد بھی جب ٹیکنالوجی، صیہونی اور انکی گرفت آنکھوں کو چندھیا رہی ہے، خدا کا وعدہ ویسے ہی موجود ہے جیسا لاکھوں سالوں سے رہا ہے۔
‏تلک الایام نداولها بین الناس!
یہاں کے آزادی کے متوالوں نے انسانی تاریخ کی اچھوتی داستانیں پھر زندہ کی ہیں۔ اپنے علاقے اور اسکی تاریخ کی لاج رکھی ہے۔ صلیبی جنگوں میں ایسا ہو چکا کہ اس علاقے کے لوگوں نے پوری پوری قوم کی قربانی دی، یہاں تک کہ مرد کام آگئے تو باقی ماندہ عورتوں نے لڑ کر جانیں دیں۔ ہزاروں سال کی گزشتہ تاریخ سے منسلک آنے والی ہزاروں برس کی تاریخ میں پیوستہ اگر کچھ ہوا بھی تو یہ انکی شکست کا واقعہ نہیں جس میں ہم زندہ ہیں، یہ عربوں، ترکوں، پاکستانیوں کی شکست کا واقعہ ہو گا۔ فلسطینی تو بچی کھچی جان بھی لٹانے کے لیے تیار ہیں!!
‏رہے یہودی تو قرآن کہتا ہے کہ یہ دنیا میں جہاں رہیں گے ذلیل ہو کر بھٹکتے پھریں گے الا یہ کہ کوئی قوم ان کی پشت پناہ ہو جائے۔ اور رباطِ غزہ اور عسقلان میں مصروف فلسطینی تو قرآن کی اس آیت کا مصداق ہیں کہ: “اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ “تمہارے خلاف بڑی فوج جمع ہوئی ہیں، ان سے ڈرو” تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے”۔

‏بات یہ ہے کہ ہزاروں سال کی اس تاریخ میں کھڑے میرے اور آپ جیسے بونے اور انکی آرا کی کیا حیثیت، مگر اتنا ضررو سوچنا چاہیے کہ ہمارا یقین خدا کی قدرت پر کیسا ہے۔ ایمان کی حالت کیا ہے! کیونکہ یہی قیامت کے دن ہمارے لیے پیش کرنے کو ہے: تاریخ کی درست سمت میں ایمان والوں کے ایمان پر ایمان لا کر کھڑا ہونا۔
ان ایمان والوں کے قائدین نے اپنی زندگیاں اسی کام میں لگا دیں۔ کوئی 30 سال سے میدان میں تھا تو کوئی 20 سال سے۔ انہوں نے زنگ آلود پستول سے میزائلوں کو سفر کیا ہے۔ اللہ نے مقدر میں شہادت لکھی ہو تو انسان جوانی سے تلاشنا شروع کرتا ہے، خدا تمام کام لے کر بڑھاپے میں بھی یہ اعزاز عطا کر دیتا ہے۔ یہ قائدین ایک نسل تیار کر کے، ایک رول ماڈل دے کر گئے، خدا نے ان شاندار آدمیوں کی خواہش کی لاج رکھی، پورے پورے وقت پر شہادتیں عطا کیں!
اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
‏اور یہ شہادتیں بھی غیر معمولی ہیں کہ سرزمین شام کی نصرتیں اور رباط غزہ وعسقلان کی عظمت ان میں شامل ہے۔
‏نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس امت کا پہلا دور نبوت اور رحمت ہے پھر خلافت اور رحمت ہوگی پھر بادشاہت اور رحمت ہوگی پھر امارت اور رحمت ہوگی اس کے بعد کے لوگ حکومت کے لئے گدھوں کی طرح ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں گے، ایک دوسرے کو قتل کریں گے اس وقت تم پر جہاد کرنا فرض ہوگا سب سے بہترین جہاد رباط ہے، اور سب سے بہترین رباط عسقلان کا رباط ہے۔
غزہ والوں اور انکے قائدین میں کئی عوامل جمع ہیں۔ یہ عسقلان سے بیدخل کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو القدس، عسقلان، اور شام کی تمام بشارتیں نصیب کر دیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ غالب اور دین پر رہے گا اور اپنے دشمنوں پر غالب،وہ اپنی مخالفت کرنے والوں یا بے یارو مددگار چھوڑ دینے والوں کی پرواہ نہیں کرے گا الاّ یہ کہ انہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے یہاں تک کہ الله تعالیٰ کا حکم آجائے اور وہ اسی حال پر ہوں گے،صحابہ نے پوچھا یا رسول الله! وہ لوگ کہاں ہوں گے؟ فرمایا بیت المقدس میں اور اس کے آس پاس۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی الله تعالیٰ عنه سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن رسول الله ﷺ کو کسی قبرستان والوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا آپ ﷺ ان قبرستان والوں کے حق میں رحمت کی دعا فرما رہے تھے آپ ﷺ نے ان کے لئے بہت دعا فرمائی آپ ﷺ سے ان قبرستان والوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ عسقلان کے شہداء کے قبرستان والے ہیں انہیں جنت میں اس طرح سجا کر اور سنوار کر آراستگی کے ساتھ داخل کیا جائے گا جس طرح دلہن کو دولہا کے پاس (خوبصورت لباس میں) داخل کیا جاتا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ اہل قبرستان پر رحم کرے ! سیدہ عائشہ رضی الله تعالیٰ عنها نے عرض کی : جنت البقیع والوں پر ؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ اہل قبرستان پر رحم کرے! سیدہ عائشہ رضی الله تعالیٰ عنها نے عرض کی: جنت البقیع والوں پر؟ یہاں تک کہ سیدہ عائشہ رضی الله تعالیٰ عنها نے تین مرتبہ یہی عرض کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : نہیں ! عسقلان کے قبرستان والوں پر۔

‏حالیہ معرکہ میں جس قدر سربریدہ اجسام ہیں جدید تاریخ میں شاید ہی ہوں، ایک حدیث رسول اس ضمن میں دل کو ایک تسکین دیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عسقلان دو عروسوں ( دو دلہن شہروں ) میں سے ایک ہے قیامت کے دن اس شہر سے ستر ہزار لوگ ایسے اٹھائے جائیں گے جن کا حساب نہیں ہوگا اور پچاس ہزار شہداء اٹھائے جائیں گے جو جماعت در جماعت الله کے دربار میں حاضر ہوں گے نیز وہاں شہدائے کرام کی صفیں ہوں گی جن کے کٹے ہوئے سر ان کے ہاتھوں میں ہوں گے، ان کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ کہہ رہے ہوں گے: اے ہمارے پروردگار ! ہمیں وہ سب عطا فرمائیے جس کا وعدہ آپ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ہم سے کیا ہے (اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجئے۔)یقیناً آپ وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کیا کرتے پس الله پاک فرمائیں گے: میرے بندوں نے سچ کہا انہیں نہر بیضہ میں غسل دو پس وہ نہر بیضہ میں غسل کر کے صاف ستھرے اور سفید بن کر نکلیں گے پھر جنت کے اندر جہاں چاہے وہاں جائیں گے۔
‏سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ایک شخص رسول الله ﷺ کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے الله کے رسول ﷺ ! میں الله کے راستے میں قتال کرنا چاہتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں شام جانا چاہئے پھر شام میں سے عسقلان چلے جانا چاہئے اس لئے کہ جب میری امت میں فتنوں کی چکی گھومے گی تو عسقلان کے لوگ ( ان فتنوں سے محفوظ رہ کر ) راحت اور عافیت میں ہوں گے۔
‏یہ سب روایات مسند احمد ابن حنبل ،معجم الکبیر اور مسند أبی يعلى الموصلی کی ہیں۔ تاریخی طور پر شام موجودہ فلسطین، شام، اردن اور لبنان کا علاقہ بنتا ہے۔ اور اس علاقے کے بارے میں اس کثرت سے فضیلت کی روایات ہیں کہ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے اہل شام کو قیامت تک الله کے حکم کے قائم کرنے اور قیامت تک ان میں طائفہ منصورہ کے وجود کی وجہ سے امتیازی طور پر ذکر فرمایا، نبی کریم ﷺ کا اہل شام سے متعلق اس طرح فرمانا ان میں دائمی کثرت وقوت کے ہونے کی دلیل ہے، اہل شام کے علاوہ اسلام کی کسی زمین کے باشندوں میں یہ وصف بیان نہیں کیا گیا، حالانکہ سر زمین حجاز ایمان کا اصل مرکز ہے، لیکن آخری زمانے میں وہاں بھی علم، ایمان، نصرت اور جہاد کم ہو جائے گا، یمن، عراق اور مشرق میں بھی یہی صورتحال ہوگی، لیکن شام میں علم و ایمان باقی رہے گا اور اس کے لیے لڑنے والوں کو ہر وقت تائید و نصرت حاصل رہے گی۔
غزہ کی اسلامی تحریک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ رباط غزہ و عسقلان کے علم بردار محض عملاً نہیں تھے بلکہ اعتقادی طور پر بھی تھے۔ یہ اعزاز PLO اور PFLPوغیرہ کو حاصل نہیں تھا۔ خدا ان چند پاکستانیوں میں ہمارے بھی نصیب کرے بس! ان لوگوں سے عداوت اور مخالفت کے شائبے سے