ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
23/10/2024
دنیا مسلسل بدل رہی ہے، ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، معاشی بحران، سیاسی، اقتصادی اور ماحولیاتی تبدیلیاں، نئی بیماریاں اور صحت سے متعلق مختلف مسائل چیلنج کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور ان سب کا تعلق ہماری زندگی میں کسی نہ کسی شعبے سے ضرور ہے۔ ان چیلنجز کا سامنا کرنا تو دور کی بات، ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اس کا علم ہی نہیں ہے۔ موجودہ دَور کے تغیرات کے پیش نظر ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول سے آگاہ رہنا اورجاننا چاہئے کہ کیا تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور وہ ہماری زندگیوں کو کیسے متاثر کر رہی ہیں ۔
علم ہر اعتبار سے ایک قیمتی سرمایہ ہے جو ہماری زندگیوں کو بہتر بناتا ہے۔ یہ ہمیں دنیا کو سمجھنے اور اپنے اردگرد کے ماحول سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔ علم ہمیں اپنے خیالات اور نظریات کو واضح کرنے اور ان کو دوسروں تک پہنچانے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ یہ ہمیں اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے اور دنیا پر ایک مثبت اثر ڈالنے میں مدد کرتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم مذہبی تعلیمات کے ساتھ، ہر تعلیم کو جوڑنے کی کوشش کریں اور اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ ترقی کریں۔
ٹیکنالوجی کی ترقی نے مذہبیات کو ہمارے لئے آسان اور قابل رسائی بنا دیا ہے۔ وہ اس طرح کہ بہت سی کتابیں جو ہمارے اطراف کی دکانوں پر دستیاب نہ ہوں ، آن لائن گھر بیٹھے پڑھ سکتے ہیں ، دین کی باتیں خود سیکھ سکتے ہیں اور دوسروں کو سکھا سکتے ہیں، اور مذہبی رہنماؤں سے آن لائن مشورہ کر سکتے ہیں ۔ ٹیکنالوجی نے مذہبی برادریوں کو بھی ایک دوسرے سے جڑنے اور ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے میں آسانی پیدا کر دی ہے لیکن جہاں فائدہ ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان نظر آرہا ہےکیونکہ بعض اوقات اختلافات کو ہوا دینے والے مباحث چھڑ جاتے ہیں جن سے بچنے کی ضرورت ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کر کے دین اسلام کے فروغ میں جہاں آسانیاں فراہم کی جارہی ہیں وہیں اس ٹیکنالوجی کا منفی استعمال کر کے لوگوں کو گمراہی کی راہ پر گامزن بھی کیا جارہا ہے۔ بے ہودہ اور غیر اخلاقی مناظر سے بھرپور ڈرامے، ریلز اور شارٹ کلپس، ویڈیوز وغیرہ پوسٹ کی شکل میں سوشل میڈیا کو آلودہ کیا جارہا ہے۔ بدلتے حالات اور اس پرفتن دور میں ایمان کی سلامتی کو جو خطرہ لاحق ہے اس سے ہم بخوبی واقف ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اسلامی طرز عمل اور شریعت کی پاسداری اور قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوکر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے وقت اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مثبت اقدامات کئے جائیں تاکہ امت مسلمہ اور ہماری آنے والی نسلوں کو نقصان سے بچایا جاسکے۔
ہمیں کسی ایسے رہنما کی ضرورت ہے، جو مذہب کے ساتھ ہر شعبۂ فکر کو سمجھنے والا ، ملک کے لئے امن و امان کے فیصلے کرنے والا، مذہب اور رنگ و نسل سے قطع نظر لوگوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے والا ہو۔ لیکن یہ خواب بن کر رہ گیا ہے۔
یاد رہے!! جو قرآن و احادیث کے احکام ہیں وہی ہمارا منشور ہے۔ ہمیں دیگر مسائل سے نمٹنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی برادریوں کو مضبوط بنانے سے معاشرے میں امن، ترقی اور اتحاد کو فروغ ملے گا جس سے معاشرہ کامیاب ہوگا اور اس کے ساتھ ملک ترقی کرے گا۔
ہماری زندگی کے لئے یہ تمام حالات ایک چیلنج ہیں اور ہمارے لئے یہ ایک موقع بھی ہیں۔ ان حالات کے بارے میں سوچ کر پریشان ہونے کے بجائے ہم اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کریں، امن و امان، محبت اور مساوات کو فروغ دینے کی کوشش کریں، اپنوں کو آگے بڑھائیں اور ایجوکیشن پر فوکس کریں۔ ہم غور کریں کہ اپنے ملک میں غربت اور بے روزگاری کو کم کرنے میں کس طرح اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں جس سے ملک و ملت دونوں ترقی کرسکیں۔