تُو کہ ناواقفِ آدابِ شہنشاہی تھی
20/05/2024
تُو کہ ناواقفِ آدابِ شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تجھ کو انکار کی جرأت ہوئی تو کیونکر
سایۂ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے
اہلِ ثروت کی یہ تجویز ہے سرکش لڑکی
تجھ کو دربار میں کوڑوں سے نچایا جائے
ناچتے ناچتے ہو جائےجو پائل خاموش
پھر نہ تازیست تجھے ہوش میں لایا جائے
لوگ جب اس منظر جانکاہ کو جب دیکھیں گے
اور بڑھ جائے گا کچھ سطوتِ شاہی کا جلال
تیرے انجام سے ہر شخض کو عبرت ہو گی
سر اٹھانے کا رعایا کو نہ آئے گا خیال
طبعِ شاہانہ پہ جو لوگ گراں ہوتے ہیں
ہاں انہیں زہر بھرا جام دیا جاتا ہے
تُو کہ ناواقف آداب شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
حبیب جالب