تلخ ذائقہ

11/12/2024

غصہ ایک جذباتی حالت ہے جو انسان کے اندر کسی بات یا صورتحال سے ناراضگی، ناپسندیدگی یا پریشانی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی اور معمول کا جذباتی ردعمل ہے جو مختلف وجوہات کی بناء پر ظاہر ہو سکتا ہے، جیسے کہ ناانصافی، غم، یا کسی کی طرف سے تکلیف پہنچانا۔
جس طرح رب العالمين نے انسان کو مکمل طور سے درست تخلیق فرمایا، اس کی مادی ضروریات کا اس کی تخلیق کے عین مطابق انتظام کیا اور حلال و حرام کا معیار مقرر کیا ہے بالکل اسی طرح احساسات و جذبات کو فطرت کے عین مطابق تخلیق کیا اور اس میں بھی نفع و نقصان کا معیار مقرر کر دیا.
راوی بیان کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غصے کا ذکر فرمایا: ” ان میں سے کچھ کو غصہ جلد آ جاتا ہے اور جلد ہی اتر جاتا ہے. اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہیں غصہ دیر سے آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے. اور تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جسے غصہ دیر سے آتا ہے اور جلد زائل ہو جاتا ہے.”
(مشکوٰۃ المصابیح: باب الآداب، حدیث نمبر 5145)

سب سے زیادہ غصہ کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں، جو متکبر ہوتے ہیں. وہ اپنی بات، رائے سے اختلاف برداشت نہیں کر سکتے، اپنے اوپر تنقید یا نصیحت پسند نہیں کرتے حتیٰ کہ وہ دل میں تسلیم بھی کر رہے ہوں کہ دوسرے کی رائے درست ہے اور غلطی میری ہے. اس کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہتے ہیں. اور انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں. احساس کمتری کے مارے لوگ بھی غصہ ور ہوتے ہیں کیونکہ احساس برتری اور کمتری کے درمیان معمولی سا نفسیاتی فرق ہوتا ہے.
اللہ تعالیٰ نے انسانی جذبات کو مثبت رکھنے کے لیے فطرتاً عقل و شعور اور علم و فہم حاصل کرنے کے مواقع سے نوازا ہے.
” اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے وہ ہیں جو خوشحالی اور بدحالی میں اپنے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، غصہ آۓ تو پی جاتے ہیں، دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں. اور اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں ایسے محسنین سے”- (آل عمران 134)

ہر اخلاقی بیماری طبعاً ہر انسان کو بری لگتی ہے اور فطرتاً ہر انسان آفاقی بھلائیوں کا گرویدہ ہوتا ہے، انسان جب کسی پہ غضبناک ہوتا ہے تو یہ شیطان کے وسوسے کی وجہ سے ہوتا ہے. وہ انسان کو آگ بگولہ کرنے کا ہر ہتھکنڈا استعمال کرتا ہے. شیطان کے جال سے بچنے کے لیے اپنے نفس کی تربیت کرنی ہوتی ہے اور یہ کام اپنے نفس پہ جبر کر کے ہی ممکن ہوگا. غصے کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا ہم سب کو بخوبی علم ہے. آئیے ہم اس کے تدارک پہ غور و فکر کریں.
قرآن پاک میں غصہ پی جانے اور درگزر کرنے کی تربیت کی گئ ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں کرنے کے کام یہ ہیں:
غصے کی کیفیت طاری ہونے لگے تو اعوذباللہ من الشیطان الرجیم دہرایا جائے. صحیح بخاری:(4048)
غصہ شیطانی وصف ہے، شیطان آگ سے بنا ہے اور پانی سے آگ بجھائی جاتی ہے، لہٰذا وضو کیا جائے. (سنن ابی داؤد : جلد 2 صحفہ 304)
بقدر ضرورت پانی ٹھہر ٹھہر کر پیا جائے.
اپنی حالت میں تبدیلی لائی جاۓ، گویا کہ غصہ کی کیفیت سے دھیان ہٹایا جائے. کھڑا ہو تو بیٹھ جاۓ یا لیٹ جائے. (سنن ابی داؤد: 4782)

یاد رکھیں!! غصہ کرنا ایسی برائی ہے جس سے باقی ساری خوبیوں پہ پانی پھر جاتا ہے. اسی لیے اسے شیطانی عمل کہا گیا ہے. اور شیطانی عمل حرام قرار دیا گیا ہے. یقیناً دنیا کا سب سے تلخ مشروب جو پورے وجود کو ہلا کے رکھ دیتا ہے وہ “غصہ” ہے.
بے شک غصہ ایک روئیہ ہے جو ہر انسان کو آتا ہے. سیکھنے کی بات یہ ہے کہ جب تک غصے جیسے تلخ مشروب کا ذائقہ جسم و جان کو محسوس ہوتا رہے، غصہ دلانے والے سے اس موضوع پہ بات نہ کی جائے. جذبات و احساسات کے منفی اثرات پہ صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا جاۓ، اگرچہ اس کے لیے اپنے آپ پر جبر ہی کیوں نہ کرنا پڑے. جب قلب و ذہن تلخ احساسات سے نکل کر معمول پہ آ جائیں تو معاملہ فہمی آسان ہو جاتی ہے.

اپنے مضمون کو اس دعا کے ساتھ ختم کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولادوں کو غصہ کرنے سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین.