اسرائیلی دہشتگردی اور دنیا بے حس و حرکت تماشائی
26/10/2023
گزشتہ کئی روز سے فلسطین پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہے۔ ہر کوئی خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو قتل کر رہی ہے۔ فلسطینی کھانے پینے کی اشیاء،ادویات اور پانی کی ترسیل سے محروم ہیں ۔
اسرائیل کی جانب سے وائٹ فاسفورس کا استعمال کرکے فلسطینی عوام کی پراپرٹی کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ سب ممالک زبانی کلامی اس ہولناک تباہی پر مذمت کرنے کے سوا اس وحشیانہ ظلم و جبر کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کر رہے۔ فلسطین اور کشمیر کھلی جیلیں ہیں، سب سے زیادہ جینوسائیڈ فلسطین میں ہو رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق جو اعداد و شمار رجسٹر ہوئے ہیں، ان کے مطابق فلسطین میں 5 سے 6 ہزار لوگ شہید کیے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے دنیا پر بڑے اثرات آنے والے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بھی اثرات آئیں گے۔ اسرائیل نے ایک نئی مثال قائم کی کہ وہ جو مرضی کرے، دنیا اسے کچھ نہیں کہہ سکتی اور نہ روک سکتی ہے۔ دنیا سے کوئی مضبوط و توانا آواز نہیں آ رہی جو اسرائیل کو روک سکے ۔ کیا دنیا میں کوئی بھی نہیں جو اسرائیل کو جنگی جرائم سے روک سکے؟؟؟ فلسطین میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے۔ نیتن یاہو، مودی کا نیکسس ایکسپوز ہو رہا ہے۔ فلسطینی عوام کو کہا جا رہا ہے کہ یہاں سے نکل جائیں۔ بھلا فلسطینی عوام کیوں اپنی جگہ چھوڑیں ۔
افغانستان میں ایک سال میں جو کچھ کیا گیا، فلسطین میں کارپٹ بمبنگ کرکے 2 دن میں اتنا نقصان کر دیا گیا ۔ ہندوتوا کے ذریعے دہشت گردی پھیلائی جا رہی ہے۔ جنیوا معاہدے کی کھلی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اس معاملے میں صرف مذمت کافی نہیں،امن افواج کہاں ہیں؟۔ دنیا میں مذہبی ہم آہنگی کے قائدین کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔
فلسطین جنگ کو روکنے کے لیے دنیا بھر سے آواز آنی چاہیے۔ فلسطین جنگ نہ رُکی تو عالمی معیشت تباہ ہونے کے خدشات موجود ہیں۔امریکی وزیر خارجہ اس سلسلے میں، اور دیگر مغربی ممالک بھی کوئی مثبت کردار ادا نہیں کررہے ہیں لیکن امریکا کا کردار سب سے زیادہ گھناؤنا اور منفی ہے جو ناجائز ریاست اسرائیل کو جنگ کے سلسلے میں ہر قسم کی امداد و اعانت فراہم کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اپنے دورہ اسرائیل کے دوران جو کچھ کہا اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک جنونی صہیونی ہیں جو مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف غاصب اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کررہا ہے۔ ایک طرف انٹونی بلنکن اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو مکمل حمایت کا یقین دلارہے ہیں اور دوسری جانب دنیا کی نظروں میں خود کو امن پسند ظاہر کرنے کے لیے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کر کے بیجنگ سے مدد طلب مانگ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل اور حماس تنازع کو مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک تک پھیلنے سے روکنے کے لیے حرکت میں آئے۔ اس کے جواب میں وانگ یی نے کہا کہ واشنگٹن کو تعمیری اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ وانگ یی نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر کشیدہ معاملات سے نمٹتے ہوئے، بڑے اور اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کو سنجیدگی اور شفافیت پر عمل کرنا چاہیے۔
اس پورے معاملے میں اقوام متحدہ بھی ایک کٹھ پتلی بنا ہوا ہے اور اس کے سربراہ انتونیو گوتریس منت سماجت کے انداز میں کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری اور ناکہ بندی کے دوران شہریوں تک خوراک، ایندھن اور پانی جیسی اشیائے ضروریہ پہنچانے کی اجازت دی جائے۔ اقوام متحدہ نے غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طبی رو بنیادی سہولیات منقطع کرنے کو غیر انسانی فعل قرار دیا اور اسرائیل سے فوری طور پر بنیادی سہولیات کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ محض بیانات سے صورتحال میں اگر کوئی بہتری آنی ہوتی تو یہ مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا۔ فلسطین اور کشمیر دونوں گزشتہ پون صدی سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر ہیں لیکن دونوں مسائل اس لیے حل نہیں ہوئے کہ مسلم ممالک کے حکمران ان دونوں علاقوں میں مظلوم عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں۔ یہ معاملہ رکنے والا نہیں ہے۔ اسرائیل کی دہشت گردی دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔
یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ اس سب کے باوجود مسلم ممالک کے حکمران کوئی عملی کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ان سے بہتر کردار مغربی ممالک کے ان غیر مسلم شہریوں کا دکھائی دیتا ہے جو مختلف شکلوں میں اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ناجائز صہیونی ریاست کی مدد بند کریں اور مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والی بربریت رکوائیں۔ مسلم ممالک اگر واقعی اس مسئلے کو حل کرانا چاہیں تو وہ غاصب اسرائیل کی حمایت کرنے والے امریکا اور دیگر مغربی ممالک کو مختلف ذرائع سے واضح پیغام دے کر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرا سکتے ہیں۔