آزمائش پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خاطر صبر کرنے کی فضیلت
10/10/2024
(اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ)
1۔ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ط اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَo
(البقرۃ، 2 : 153)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے. ‘‘
2۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَيْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَo
(البقرۃ، 2 : 155)
’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں. ‘‘
3۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا قف وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
(آل عمران، 3 : 200)
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد و مجاہدہ کے لیے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو. ‘‘
4۔ وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً وَّیَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰٓئِکَ لَهُمْ عُقْبَی الدَّارِo
(الرعد، 13 : 22)
’’اور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی کے لیے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (دونوں طرح) خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا (حسین) گھر ہے. ‘‘
5- الَّذِيْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ عَلٰی مَآ اَصَابَهُمْ وَالْمُقِيْمِی الصَّلَاةِ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَo
(الحج، 22 : 35)
’’(یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور جو مصیبتیں انہیں پہنچتی ہیں ان پر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں. ‘‘
6۔ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَo الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo
(العنکبوت، 29 : 58، 59)
’’(یہ) عملِ (صالح) کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے. (یہ وہ لوگ ہیں) جنہوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر ہی توکّل کرتے رہے. ‘‘
7۔ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِحِسَابٍo
(الزمر، 39 : 10)
’’بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا. ‘‘
8۔ وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُورِo
(الشوری، 42 : 43)
‘‘اور یقینا جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بے شک یہ بلند ہمت کاموں میں سے ہے.”
9۔ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo
(العصر، 103 : 3)
’’سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے.‘‘
صبر و تقویٰ مومن کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مندی و سرفرازی کیلئے دو عظیم الشان ذریعے ہیں صبر کا حاصل اور راہ حق پر ثابت قدم رہنا ہی تقویٰ کا خلاصہ و مفہوم ہے. اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی کیلئے اس کے آگے سر تسلیم خم رہنا اور اس بنیادی حقیقت کو اپنے پیش نظر رکھنا کہ میرا خالق و مالک مجھ سے ناراض نہ ہو جائے کہ اس کا حق سب سے بڑا سب سے مقدم اور سب پر فائق ہے،صبر کے حوالہ سے حضرت ابوہریرہ ؓحدیث قدسی نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اگر کسی بندے کی بینائی زائل کر دی اور اس نے اس آزمائش پر صبر کیا اور مجھ سے ثواب کی امید رکھی تو میں اس کے لئے جنت سے کم بدلہ دینے پر کبھی راضی نہیں ہوں گا.
قرآن کریم میں صبر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے خالق کائنات نے متعدد مقامات پر صبر کے اجر و ثواب کا بیان بھی فرمایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ بھی اسی امر کی عکاس ہے کہ آپ نے صبر کا دامن ہاتھ میں تھامے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ شکر کا کلمہ ادا کیا اور اپنے صحابہ کرام کو بھی صبر کا درس دیا. قرآن کریم میں متعدد جگہ مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صبر اور نماز کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اسی قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہو جاتی ہیں، ہمارے پیارے نبی کریم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ کو کوئی بھی پریشانی لاحق ہوتی تو نہ صرف یہ کہ صبر کرتے اورخود بھی نماز میں مشغول ہوتے بلکہ اپنے اہل بیت کو بھی اس کی دعوت دیتے تھے.
صبر کی اہمیت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک میں اس کا ذکر 70 مرتبہ آیا ہے. حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے صبر کو ارکان ایمان میں سے ایک قرار دیا ہے اور اسے جہاد، عدل اور یقین کے ساتھ ملاتے ہوئے فرمایا، اسلام چار ستونوں پر مبنی ہے،1۔ یقین ، 2۔ صبر ، 3۔ جہاد ، 4۔ عدل. بلاشبہ صبر ایک ایسی عبادت ہے جس سے انسان روحانی طور پر اعلی اور با وقار مقام حاصل کر سکتا ہے اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ صبر کا دامن مضبوطی سے تھامیں رکھیں کیونکہ نہ صرف دین میں اس کا واضح حکم موجود ہے بلکہ یہی ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی اصل منزل تلاش کر سکتے ہیں۔